میں ابھی کچھ دیر اور اپنے قلیل قارئین کے صبر کا امتحان لوں گا اور کچھ اور ایسی کتابوں کا تذکرہ کروں گا جنہوں نے مجھے پچھلے کئی ماہ سے اپنے تخلیقی سحر میں باندھے رکھا۔ اگر آپ کو بین الاقوامی ادب سے کچھ شغف نہیں تو میں آپ کو مورد الزام نہیں ٹھہراؤں گا۔۔۔یقیناًرانا ثناء اللہ، خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید اور فیصل آباد کے ایک ٹرانسپورٹر کے ارشادات زیادہ دلچسپ اور خِرد انگیز ہوتے ہیں لیکن ۔۔۔کچھ حرج نہیں اگر ہم اِن عظیم دانشوروں کے اقوالِ زریں کے علاوہ دنیا کے دیگر معمولی عقل رکھنے والے لوگوں کی تخلیقات پر بھی کچھ وقت ضائع کردیں۔
ادب کے نوبل انعام یافتہ فرانسیسی ادیب کے بیشتر ناول مجھے متاثر نہ کرسکے۔۔۔اور اُس کا عجیب سا نام ہے۔۔۔ لِی سلنیریو۔۔۔ یہ صاحب اگرچہ جنوبی فرانس کے شہر نِیس میں پیدا ہوئے اور اس خاکسار نے بہت زمانے ہوئے اُس ساحلی شہر کے سمندروں کے کنارے اپنا خیمہ لگایا تھا اور خوب نہایا تھا۔۔۔ سلنیریو کی ماں فرانسیسی ہے اور باپ موریشس افریقہ کا ہے۔۔۔وہ کچھ عرصہ نائیجریا میں بھی رہا جہاں اُس کا باپ برطانوی فوج کے ساتھ کام کرتا تھا۔۔۔اُس کا پہلا ناول ’’انٹیروگیشن‘‘یعنی ’’تفتیش ‘‘تھا۔۔۔نوبل کمیٹی نے اُسے انعام کا حقدار ٹھہراتے ہوئے اُس کی ناول نگاری کی توصیف کرتے ہوئے بیان کیا کہ۔۔۔وہ نئی روانگی کا مصنف ہے، شاعرانہ مہم جوئی، حسیات کی سرخوشی اور انسانیت کا جہاں گرد ہے۔۔۔اُس کا ناول ’’وار‘‘یعنی ’’جنگ‘‘اگر پڑھ سکتے ہیں تو پڑھ لیجئے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو ان دنوں ’’جنگ جنگ‘‘ کا راگ درباری الاپتے رہتے ہیں۔ طبلِ جنگ بجاتے اپنے آپ کو محب الوطن ثابت کرتے رہتے ہیں۔
اب ذرا جنگ اور تباہی سے کچھ دُوری اختیار کرکے رتّی سجاد کی تقریباً خود نوشت ’’میموریز آف اے سمال ورلڈ‘‘ کی جانب نگاہ کرتے ہیں جس میں ایک بڑی بہن اپنی چھوٹی ڈارلنگ ہمشیرہ کو دنیا کے مختلف خِطوں سے خط لکھتی ہے اور بالآخر موت کا شکار ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر وہ خط جو اُس نے اُندلس کی سرزمین کے قیام کے دوران تحریر کئے۔ اُندلس میرا بھی محبوب رہا ہے’’اُندلس میں اجنبی‘‘میری اس محبت کا تحریری ثبوت ہے۔ اور میں نے ان خطوں کے حوالے سے اپنے سفر اُندلس کے زمانوں کو پھرسے اپنی آنکھوں میں زندہ ہوتے محسوس کیا۔ رتیّ سجاد، ہمارے علیل دوست، اردو افسانے کے جدید روپ کے بانی، اداکار، رقاص، سیاست دان، ڈرامہ نگار، انور سجاد کی اہلیہ ہیں۔ ان دنوں اپنے بے مثال ادیب خاوند کی تیمارداری کے لئے وقف ہو چکی ہیں۔
ایک اور مقامی پاکستانی انگریزی کی کتاب ’’لاہور کے چار درویش‘‘ مجھے فیض صاحب کی بیٹی جو اس بڑھاپے میں دور سے دیکھیں تو لگتا ہے کہ فیض صاحب چلے آ رہے ہیں، اُنہوں نے عطا کی۔ شاید اس لئے کہ یہ کتاب اُن کے خاوند حُمیر ہاشمی نے تصنیف کی ہے۔ حمیر ایک معروف نفسیات دان اور اکثر ماڈل ٹاؤن پارک میں بے دریغ جوگنگ کرتے ہوئے مجھے ملتے رہتے ہیں۔ نہایت خطر ’’ناک‘‘ ہیں۔ اُنہوں نے لاہور کے چار درویشوں میں فیض احمد فیض، ڈاکٹر نذیر احمد، مصور شاکر علی اور عبداللہ ملک کو شمار کیا ہے۔۔۔اگرچہ فیض صاحب اُن کے سسر تھے لیکن بہرطور وہ اپنی نوعیت کے ایک درویش تو تھے۔ ڈاکٹر نذیر احمد تو صرف درویش نہ تھے، کسی حد تک مجذوب تھے لیکن یقین کیجئے کہ شاکر علی کچھ زیادہ درویش نہ تھے اور عبداللہ ملک کو اگر معلوم ہو جاتا کہ آئندہ زمانوں میں اُنہیں ایک درویش قرار دیا جائے گا تو وہ فوری طور پر خودکشی کر لیتے ۔ بہرطور ’’لاہور کے چار درویش‘‘ ایک بے مثال تحریر ہے، نہایت اُلفت اور گہری وابستگی سے مکمل ہوئی تحریر۔۔۔ ایک اور کتاب ’’بی یانڈ اَدر‘‘نام کی ، سوچ کو مہمیز دینے والے چند مضامین کا مجموعہ، بہ شرط کہ آپ کی سوچ کسی ایک کھونٹے سے بندھی ہوئی نہ ہو، فیض گھر کی جانب سے شائع شدہ، اردو ترجمہ ’’تعصب کے پار‘‘ کے عنوان سے ہو چکا، مصنف ہارون خالد نام کے کوئی صاحب ہیں۔۔۔مضامین بہت منفرد نوعیت کے ہیں۔ مثلاً ’’کیرتن سے قوالی تک‘‘، ’’سکھ مذہب میں میراثیوں کا کردار‘‘، ’’گرنتھ صاحب کے مسلمان شاعر‘‘ ۔۔۔’’دلا بھٹی اور لوہڑی کا جشن‘‘، ’’ہیررانجھا میں مہاراج کرشن‘‘، ’’سیہون شریف اور شیوا‘‘، ’’جھولے لال کے مسلمان مرید‘‘ اور ’’حسینی براہمن‘‘۔۔۔ مجھے اس مضمون نے خبر کی کہ جھولے لال ایک ہندو فقیر تھا۔ آپ نے بسوں اور ویگنوں پر جھولے لال لکھا ہوا دیکھا ہوگا بلکہ ’’جھولے لال قلندر مست مست‘‘ بھی یہی ہندو بھگت ہے۔ حسینی براہمنوں کے بارے میں کبھی الگ سے لکھوں گا۔۔۔یہ براہمن باقاعدہ محرم مناتے ہیں اور امام حسینؓ کی شہادت کے حوالے سے ماتم کرتے ہیں۔
کتابیں تو چند ایک اور بھی ذہن میں آتی ہیں لیکن خلق خدا کو مزید بور کرنا مناسب نہیں۔ آخر میں صرف اپنے من پسند پُرتگالی ناول نگار وسے سراماگو کے ناول ’’ڈیتھ ایٹ انٹرولز‘‘ کا تذکرہ کروں گا ۔۔۔مظفر محمد علی نے اپنے افسانوی مجموعے کا نام بھی ’’قِسطوں میں موت‘‘ رکھا ہے۔ سراماگو نہایت ناقابل یقین اور ناقابل فہم موضوعات کا چناؤ کرتا ہے۔ کبھی ایک شہر یکدم نابینا ہونے لگتا ہے اور کبھی پرتگال اور سپین یورپ سے کٹ کر امریکا کی جانب بہنے لگتے ہیں۔۔۔ وہ بے یقینی سے شروع کرتا ہے اور یقین کی سرحد تک آجاتا ہے۔۔۔اور یہ ناول ایک اور انوکھا اور ہولناک موضوع اختیار کرتا ہے۔۔۔کسی ملک میں نئے سال کا آغاز ہوتا ہے اور اُس کے پہلے دن پورے ملک میں کوئی موت واقع نہیں ہوتی، قریب المرگ مریض بھی بھلے چنگے ہو جاتے ہیں، موت رخصت ہو جاتی ہے اور لوگ حیات جاوداں کی خوشی میں جشن مناتے ہیں، قومی پرچم لہراتے ہیں اور خوب موج میلہ کرتے ہیں۔۔۔جب ایک عرصے تک کوئی بھی شخص موت سے ہمکنار نہیں ہوتا تو کچھ مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ مردے دفن کرنے والی کمپنیاں احتجاج کرنے لگتی ہیں کہ ہماری تو لُٹیا ہی ڈوب گئی، ہم کس کو دفن کریں۔۔۔حکومت اعلان کرے کہ آئندہ اگر کوئی جانور یا پرندہ مر جائے تو اُسے پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا جائے۔۔۔پالتو چڑیوں اور طوطوں کے تابوت تیار کئے جائیں یعنی طوطے کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے تاکہ ہمارا کچھ تو کاروبار چلے۔۔۔انشورنس کمپنیاں بیکار ہو جاتی ہیں کہ اگر کسی نے مرنا نہیں تو وہ انشورنس کیوں کروائے گا۔۔۔لیکن سب سے زیادہ فکرمندی چرچ کی جانب سے ہوتی ہے۔۔۔ لاٹ پادری کہتے ہیں کہ اگر موت نہیں ہوگی تو ہم لوگوں کو عذاب سے کیسے ڈرائیں گے، یوں تو چرچ بند ہو جائے گا۔۔۔لوگ نئے چرچوں کے لئے چندہ نہیں دیں گے۔۔۔کیا اب آپ کو یقین آیا کہ ہوسے سراماگو کیسے بے یقینی پر مبنی ’’واہیات‘‘ناول لکھتا ہے۔ اُسے اس واہیات تخلیقی قوت کی وجہ سے ادب کا نوبل انعام بھی ملا۔۔۔سراماگو کو پڑھے بغیر آپ جدید ناول تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔
فیس بک کمینٹ