لاہور تاریخ کے نگار خانے میں ایک عجائب ہے۔ بہت دیوانگی‘ عبادت‘ ریاضت پاکیزگی اور روحانیت کا۔ اس نگارخانے میں ایسی ایسی محیرالعقول داستانیں رقم ہیں کہ انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ وہ یقین کس کا کرے۔ تعصب ‘ مذہبی تنگ نظری کا یا فراخ دلی اور انسانیت کے اعلیٰ پیمانوں کا۔ مجھے آج تین الگ الگ داستانیں سنانی ہیں۔ تاریخ اور عقیدے کے تین سب سے بڑے جری اور شاندار کردار اور تینوں کی عظمت اور پارسائی میں کچھ شک نہیں۔ حیرت یہ ہے کہ یہ تینوں اگرچہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ مسلمان ہندو اور سکھ اور اس کے باوجود وہ ایک ہی ڈور سے بندھے ہوئے ہیں۔ ایک ہی مسلمان درویش کے قدموں کی مٹی کو اپنے ماتھے پر لگا کر اس کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں اور مرشد بھی ایسا کہ وہ ان کے لئے اپنی جان نثار کرنے کو تیار۔ دوستوں کے لئے مغل شہنشاہوں سے بھڑ جانے والا، 1550ء میں سیستان میں پیدا ہونے والا۔ فاروق اعظمؒ کی اولاد میں سے لاہور چلا آتا ہے اور کیا امیر کبیر اور کیا افلاس کے مارے ہوئے سب کو اپنے حسن اخلاق شخصیت کی سحر کاری سے، پرہیز گاری اور پارسائی کے معجزے سے اسیر کر لیتا ہے۔1635ء میں اٹھاسی برس کی عمر میں فوت ہوتا ہے اور اس شہر کی مٹی میں دفن ہو جاتا ہے ان کے مرید ملا فتح اللہ شاہ نے قطعہ تاریخ مرتب کیا جو ان کے مرقد کے دروازے پر درج کیا گیا۔ میاں میر سر دفتر عارفاں کہ خاک درش خاک اکسیر شد سفر جانب شہر بادید کرد ازین محنت آباد دیگر شد خرد بہرسال و وفاتش نوشت بہ فردوس والا میاں میر شد وہ ایک بہت سرد سویر تھی اور دھند ابھی لاہور کے بام و در پر ٹھہری ہوئی تھی جب میں نے اس درویش کے مزار پر جانے کا قصد کیا۔ اگرچہ سکت کم ہوتی جا رہی تھی لیکن اگر وہ درویش اٹھاسی برس کی عمر میں بھی اپنے ایک سکھ دوست کی جان بچانے کے لئے ایک شہنشاہ کے دربار میں جا سکتا تھا تو اس کی نسبت ابھی تو میں جوان تھا۔ صرف اسی برس کا تھا۔ اس کے مزار کے احاطے کی قدیم فصیل میں جھروکے تھے، شکستہ محرابیں تھیں اور مزار کے چھجوں پر براجمان سردی سے ٹھٹھرے ہوئے لگتے تھے۔ بت بنے بیٹھے تھے کہ کب سورج کی پہلی کرنیں اتریں، ان کے بدن کو حدت سے بھر دیں اور وہ پھڑپھڑانے لگیں۔ لوگ بھی کم تھے۔ پچھلی شب کے چراغ کا طاقچوں اور محرابوں میں بجھتے جا رہے تھے۔
حضرت میاں میر صاحب کے مزار کے احاطے کا فرش جو کبھی سنگ سرخ کا ہوا کرتا تھا سنگ مر مر میں منتقل ہو چکا تھا اور اس پر ننگے پاؤں چلنے سے ٹھنڈک بدن میں سرایت کرتی تھی۔مجھے اس مرد درویش کی شخصیت کی سحر انگیزی ہمیشہ اسیر کرتی رہی ہے کہ وہ کیسا چراغ تھا جس کی روشنی تمام مذاہب کے لوگوں کے چہروں کو پرنور کرتی تھی۔ اس کی شباہت اور پرہیز گاری میں وہ کون سی کشش تھی کہ جس نے دیکھا ان کا زندگی بھر کے لئے مرید ہو گیا۔ اس نے یہیں آس پاس اپنی زندگی بسر کی اور کیسے کیسے لوگ ننگے پاؤں چلتے، آنکھیں جھکائے اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے چلے آیا کرتے تھے۔ علم و فضل میں یکتا، پارسائی میں بے مثال تین تاریخی کردار تین داستانیں پہلا کردار لاہور کا سنیار‘ جوہری اور زیورات تراشنے والا چھجو رام جس کے چوبارے کی دھوم بلخ اور بخارے میں پڑ گئی۔ اس کے چوبارے کے آثار میو ہسپتال کے ایک وارڈ کے صحن میں ابھی تک بے مثال مرصع کاری اور زیبائش کی شانداری کے ساتھ موجود ہیں، اسے شروع سے ہی تصوف سے لگاؤتھا۔ اس کی ایمانداری اور پارسائی کے قصے اہل لاہور کی زبان پر تھے وہ کسی مرد کامل کی تلاش میں بہت بھٹکا اور بالآخر حضرت میاں میر کی محفلوں میں جا بیٹھا۔ ان سے تصوف کے رموز سیکھے۔ خلق خدا کی خدمت کا مذہب اختیار کیا۔ میاں میر صاحب کا مرید ہوا تو بت پرستی سے تائب ہو کر وحدانیت کے راستے پر سچ کا متلاشی ہوا۔ اس نے کاروبارترک کیا کہ آسودگی بہت ہو چکی تھی۔ ایک شاندار چوبارہ تعمیر کیا جس کی بالائی منزل پر وہ ہمہ وقت گیان دھیان میں گم رہتا اور ایک مختصر سے وقت کے لئے سیڑھی سے اتر کر نیچے آتا اور خلق خدا کے دکھوں میں شریک ہوتا اور پھر اسے چھجو رام نہیں چھجو بھگت کہا جانے لگا۔ اور یہ کرشمہ میاں میر صاحب کا تھا جو اس کے اتنے مداح تھے کہ کئی بار کسی سوال پر کہتے ۔ چھجو سے پوچھو۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے پاس بہتر جواب ہو۔ چھجو بھگت بھی انہیں پتھروں پر چل کر اپنے مرشد کے حجرے کی جانب جاتا تھا جن پتھروں پر میرے پاؤں ٹھٹھرتے تھے۔ میں اس کی موجودگی کو محسوس کر سکتا تھا۔
دوسری داستان سلطنت مغلیہ کے وارث۔ شاہجہان کے سب سے بڑے بیٹے ایک صوفی فلسفی شہزادے داراشکوہ کی ہے اور اس کی داستان کسی بھی یونانی المیے سے کم نہیں ہے۔ اس کی تفصیل میں جانے کی حاجت نہیں کہ زبان زد عام ہے۔ اس کے علم و فضل اور درویشی کا چرچا پورے ہندوستان میں تھا۔ سچ کی کھوج میں وہ بھی بہت بھٹکا۔ درویشوں ‘ فقیروں اور بھگتوں کی محبت اختیار کی لیکن بالآخر حضرت میاں میر صاحب کے شجر سایہ دار کی چھاؤں میں آ بیٹھا اور ان کی بیعت کر لی۔ اس سے پیشتر وہ بدخشاں کے شاہ محمد المعروف ملا شاہ کا مرید تھا۔ حضرت میاں میر اور ملا شاہ نے داراشکوہ کو پہلے سے اس کی موت کے بارے میں خبر کر دی تھی۔ داراشکوہ نے اپنی تصنیف ’’سکینتہ الاولیا‘‘ میں حضرت میاں میر کا شجرہ نسب اور دیگر کوائف نہایت تفصیل سے درج کئے ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ اگرچہ میرا دادا جہانگیر فقیروں پر ذرا کم ہی یقین رکھتا تھا لیکن اس کے باوجود میاں میر بالا پیر سے بڑی عقیدت رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے شیخ کو مدعو کیا اور ان کی گفتگو سے اتنا متاثر ہوا کہ ان کا مرید ہو کر ترک دنیا پر آمادہ ہو گیا اور شیخ کے سمجھانے پر کہ تم بادشاہ اس لئے بنائے گئے کہ تم خالق کائنات کی جانب سے بندوں کی حفاظت کرو۔ رخصتی پر جہانگیر نے پوچھا کہ یا شیخ آپ کوئی بھی خواہش کریں پوری ہو گی تو میاں میر صاحب نے فرمایا بس تم مجھے دوبارہ نہ بلانا۔ یہی میری خواہش ہے۔ ’’بادشاہ نامہ‘‘ کا مصنف کہتا ہے کہ شاہجہاں اکثر کہتا تھا کہ اس نے پوری زندگی میں صرف دو فقیروں کے پاس خدائی علم پایا۔ ایک حضرت میاں میر اور دوسرے برہانپور کے شیخ محمد فضل اللہ۔شاہجہان بھی کشمیر جاتے ہوئے دو مرتبہ انہی پتھروں پر چل کر میاں میر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ داراشکوہ لاہور کا گورنر ہوا تو فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد جلی دروازے سے نکل کر روزانہ ننگے پائوں چلتا میاں میر صاحب کے مزار پر حاضری دیتا۔ اس نے خصوصی طور پر راجپوتانہ سے سنگ سرخ منگوایا تاکہ دلی دروازے سے مزار تک ایک راستہ تعمیر کیا جا سکے اور اس کے گرد چمن آرائی کی جائے لیکن چھوٹا بھائی زیادہ طاقتور تھا۔ اورنگ زیب نے اسے قتل کروا دیا اور خود تخت شاہی پر قابض ہو گیا۔ ابن انشاء کی ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ کا وہ فقرہ یاد آتا ہے کہ بچو اورنگزیب نہائت دین دار اور پارسا بادشاہ تھا۔ اس نے ساری عمر کوئی نماز نہیں چھوڑی اور نہ کوئی بھائی۔ اسی سنگ سرخ سے اس نے بادشاہی مسجد تعمیر کی لیکن میاں میر صاحب کے مزار کو بھی مکمل کیا۔ آج بھی آپ مزار کے احاطے میں جو قدیم مسجد ہے وہاں کچھ مقامات پر وہی سنگ سرخ دیکھ سکتے ہیں چنانچہ جن پتھروں پر چلتا شہزادہ داراشکوہ ہر سویر اپنے مرشد کی قبر پر حاضر ہوتا تھا میں بھی اس سویر انہی پر قدم رکھتا میاں میر صاحب کے مرقد کی جانب چلتا جاتا تھا۔ داراشکوہ کی موجودگی بھی میاں میر صاحب کے مزار کے احاطے میں محسوس کی جا سکتی ہے اگرچہ اس میں خون ناحق کی بو ہے۔چھجو بھگت ذات کا ہندو۔ داراشکوہ ایک صوفی مسلمان اور تیسری داستان ایک سکھ گورو ارجن دیو کی۔ میاں میر صاحب کا گہرا دوست اور مرید۔ اس کے خون ناحق کی بو بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ داستان موچی دروازے کے ’’لال کھوہ‘‘سے شروع ہوتی ہے۔(جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ