الطاف فاطمہ اردو ادب کا وہ المیاتی کردار ہے جو ایک مجرمانہ تغافل کا شکار ایک مدت سے ہے اور اُنہیں اس غفلت کی کچھ شکایت بھی نہیں۔ ناموری، شہرت اور سرکاری اعزازات سے وہ یوں بھی گریز کرتی ہیں۔ گوشے میں کُنج گلی کے مجھے آرام بہت ہے۔۔۔وہ کُنج گلی میں ایک مدت سے رہائش پذیر ہیں اور وہاں آرام سے بسرام کرتی ہیں۔۔۔ الطاف فاطمہ کی بے مثال زبان، اظہار اور مشاہدے کی شدت اور بیان کرنے کی قدرت سے کون انکار کرسکتا ہے، ہاں وہ انکار کرسکتے ہیں جو میڈیا پر اپنی ادبی عظمت کی ڈگڈگی بجاتے رہتے ہیں اور اُن کے حواری اُس ڈگڈگی پر ناچتے رہتے ہیں۔۔۔الطاف فاطمہ کسی طور قرۃ العین حیدر، نثار عزیز بٹ، بانو قدسیہ یا جمیلہ ہاشمی سے کم مرتبے پر فائز نہیں ہیں، کہیں کہیں وہ اُن سے بھی بُلند نظر آنے لگتی ہیں۔۔۔اُن کے بارے میں مزید تفصیل پھر کبھی سہی لیکن میں ذکر کرتا ہوں فرخ سہیل گوئندی سے ایک ملاقات کا جس کے دوران میں نے الطاف فاطمہ کی ادبی عظمت سے غفلت کی شکایت کی۔۔۔گوئندی نے کرم کیا اور اُن کے یکے بعد دیگرے دو ناول شائع کردیئے۔ دوسرا ناول ’’خواب گر‘‘ ہے ۔ اگرچہ پہلے شائع ہوا لیکن گمنام رہا، اب گوئندی نے چھاپا تو اُسے پڑھ کر میں بھی حیرت کا شکار ہوا کہ ایسا ناول کیسے پوشیدہ رہا، یا کردیا گیا، میں نے پاکستانی شمالی کے بارے میں بے شمار لکھا لیکن سفرناموں کی صورت، الطاف فاطمہ نے شمال کو اپنے ناول ’’خواب گر‘‘کا لوکیل بنایا اور ایک شاہکار وجود میں آگیا۔۔۔اسے پڑھ لیجئے گا۔۔۔خسارہ نہیں ہوگا۔
اگرچہ میرے بارے میں منادی کر دی گئی ہے کہ میں شاعروں سے بُغض رکھتا ہوں اور اس میں کچھ حقیقت بھی ہے لیکن میں بُرے شاعروں سے بغض رکھتا ہوں، اچھی شاعری سے نہیں۔۔۔ چنانچہ شاعری کی چند اُن کتابوں کا مختصر تذکر کرتا ہوں جو مجھ تک پہنچ گئیں اور اس شاعری نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر میں شاعری کر سکتا تو بس اسی نوعیت کی معجزاتی شاعری کرتا۔
جاوید انور، آسٹریا میں مقیم تھے، لاہور آئے تو رِیڈنگ کے شوروم میں ملاقات ہوئی، طے ہوا کہ اگلی جمعرات کو مل بیٹھیں گے، ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اپنا وعدہ ملاقات کا پورا نہ کرسکے۔۔۔جاوید انور کی ’’برزخ کے پُھول‘‘ دُکھ اور سُکھ کے درمیان کہیں کھلتے ہیں، محبت اور اذیت کے پانیوں میں جنم لیتے ہیں۔ یہ وہ مکھی پہ مکھی مارنے والی شاعری نہیں ہے جو آپ پڑھتے رہتے ہیں۔۔۔واہ واہ، کیا کہنے ہیں، والی داد طلب شاعری نہیں ہے یہ تو برزخ کے پھول ہیں، کبھی جنت کی ہواؤں سے جھومتے ہیں اور کبھی دوزخ کی تپش سے جھلس جاتے ہیں۔
’’اِک بات کہی جائے
اِک نظم لکھی جائے
اِک خوشبو پُھول بنے
اس بھیگی ٹہنی پر
اس رات کے جنگل میں
اِک جگنو چاند بنے
جسے چُوم لیا جائے
تجھے یاد کیا جائے‘‘۔
’’زندگی کے حاشیے پر‘‘ناہید قمر کی حیرت بھری نظموں کا ایک مجموعہ ہے جن کو پڑھتے ہوئے اختر حسین جعفری کی ’’آئینہ خانہ‘‘ نظمیں اور ن ۔م۔ راشد کے کوزہ گر یاد آنے لگتے ہیں۔ راشد تو اُس مقام پر ہیں جہاں سب شاعروں کے پَر جلتے ہیں لیکن ناہید قمر کے پَر نہیں جلے، اگر جعفری اور راشد آس پاس ہوتے تو وہ ناہید قمر کو تھپکی دیتے اور اُس سے نظموں کی فرمائش کرتے۔
’’کسی پچھلی ٹِیس کے پہلو میں، اِک پُھول نیا کِھل جاتا ہے، اِک گھاؤ پُرانا ہوتا نہیں، اِک رنج نیا مل جاتا ہے‘‘۔
’’باب جبریل، حدِ عزازیل پر، رسمِ ایثار کی سعئ پہیم ہوئے، جانمازوں پہ، تسبیح میں، رحل پر، سیمیائی سے موجود پر مکتفی۔ گنبدِ سبز کا حاشیہ ہم ہوئے، ہم پرندے کوئی!
الیاس بابر اعوان کو میں ایک گہرے بھیدوں میں اترنے والے ایک مشکل پسند نوجوان نقاد کے طور پر جانتا تھا۔۔۔اور میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ یہ نہیں جانتا تھا کہ اُس نے فرید الدین عطاّر کی مانند شاعری کے کچھ ایسے پرند اڑائے ہیں جو سچ کی تلاش میں اپنے پَر جلاتے فہم اور شعور سے ماورا وادیوں میں اڑتے چلے جاتے ہیں، الیاس کی شاعری کی توصیف اگر شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی اور ظفر ا قبال نے کی ہے تو اُس پر احسان نہیں کیا، وہ واقعی اس لائق ہے۔ ’’نووارد‘‘کی نظمیں بے جان نہیں ہیں، ہمارے اردگرد اڑان کرتی ہیں۔ اس کے انتساب نے مجھے ایک خوشگوار اور شرمندہ حیرت سے دوچار کیا ’’سرو سانسی کے نام۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ کے ناول ’’خس و خاشاک زمانے‘‘ کا ایک کردار، میں اُس کا شکر گزار ہوں، کیا اُس کی نظموں میں کہیں کہیں سروسانسی کی اس دھرتی سے جُڑی ہوئی سوچ کی مہک آتی ہے۔۔۔شاید وہ خود شاعری کی دھرتی کا ایک سروسانسی ہے۔
ٹانواں ٹانواں لَو ہے جس کی، ریشم ریشم کیس
اُس بنجارے نے اس نیلک پار بسایا دیس
دُھند کے بھیتر ندی کنارے آگ جلا دیں دونوں
اور پھر جسم دھواں ہو جاویں راکھ ہو جاویں دونوں
وہ جو ہمارے ادب میں نوخیزی اور وحشت کے زمانے ہوا کرتے تھے۔ اُن دنوں چار لڑکیاں، ریڈیو پاکستان لاہور کے برآمدوں اور باغوں میں چڑیوں کی طرح چہکتی پھرتی تھیں اور جب انوکھی شاعری کرتی پھرتی تھیں۔۔۔نسرین انجم بھٹی، شائستہ حبیب، سعیدہ تصدق ہاشمی اور شہناز پروین سحر۔۔۔ نسرین نے زبیر رانا سے شادی کرلی اور اُس کی پہلی بیوی کے بچوں کے علاوہ اُسے بھی پالا۔۔۔کینسر سے مرتے ہوئے اُس نے اپنی بہن پروین سے کہا کہ تارڑ صاحب کو یاد دلانا کہ اُنہوں نے میرے اردو کے شعری مجموعے کا دیپاچہ لکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ شائستہ نے فخر زمان سے شادی کی اور وہ بھی کینسر کا شکار ہو گئی۔۔۔ سعیدہ نے حسن نثار سے شادی کرلی، پھر طلاق ہو گئی اور پھر وہ ایک حادثے میں مر گئی۔ شہنازپروین سحر کی سلامتی کی دُعا ہم مانگتے ہیں۔ اُس نے اچھا کیا کہ ٹیلی ویژن کے شاندار پروڈیوسر راؤ ذوالفقار فرخ سے شادی کرلی۔۔۔ فرخ جانے اب کیا ہے لیکن اُن زمانوں میں ایک بلوری آنکھوں والا دل کش اور شرمیلا سا نوجوان ہوا کرتا تھا ۔۔۔ شہناز کی شاعری ’’ایک اور آخری دن‘‘ کی صورت طلوع ہوئی تو مجھے کیسے کیسے زمانے یاد آنے لگے
تمام عمر محبت کو پالتی ہوئی میں
اور آج دل سے محبت نکالتی ہوئی میں
سُلگتی لکڑی پہ روٹی کو سینکتا ترا غم
ہر ایک آنسو کو چُپ چاپ ٹالتی ہوئی میں
ترے غرور کے پتھر سے ضبط سیکھا ہے
وگرنہ چُوڑیوں کے کانچ پالتی ہوئی میں
دبے قدم ہی بڑی ہو گئی تھی میں بھی سحر
بس آٹا گوندھتی کنگن سنبھالتی ہوئی میں
———- ———-
اور اب ہم اس عہد کے اہرامِ شاعری کی بات کرتے ہیں، ظفر اقبال کے کلیات غزل کی پانچویں جِلد ’’اب تک‘‘کی بات کرتے ہیں، ظفراقبال ایک ایسے خوباں ہیں کہ کبھی گلے پڑ جاتے ہیں، کاٹ بھی دیتے ہیں اور کبھی گلے لگ جاتے ہیں اور سب دُکھڑے بھول جاتے ہیں۔۔۔وہ پچھلی نصف صدی سے میرے پسندیدہ شاعر رہے ہیں اور میں نے پہلے بھی اقرار کیا ہے کہ ظفر اقبال کی ہر بے جا طور پر طویل غزل کی شعبدہ بازی میں کم از کم ایک شعر ایسا ہوتا ہے کہ اگر یہ آس پاس کے ’’المشہور‘‘شاعر اُس جیسا ایک شعر پوری زندگی میں کہہ لیں تو اُس کی ڈفلیاں بجاتے پھریں، پر وہ نہیں کہہ سکتے۔۔۔آج سے پچاس برس پیشتر ’’سویرا‘‘میں ظفر اقبال کا ایک عجیب سا شعر پڑھا اور اُس کا گرویدہ ہو گیا۔
میں اتنا بدمعاش نہیں یعنی کُھل کے بیٹھ
چبھنے لگی ہے دھوپ، سویٹر اتار دے
ظفر اقبال نے جانے کیوں اور کس لَہر میں ’’سویرا‘‘ میں میرے ’’برخلاف‘‘ بہت کچھ لکھا، میں جواب دے سکتا تھا پر چُپ رہا کہ میں کبھی جواب نہیں دیتا اور یُوں بھی وہ میرے محبوب شاعر تھے، اپنے محبوب کو جواب دے کر شرمندہ کیوں کرتا۔۔۔سنگِ میل کے نیاز احمد کی وفات پر ظفر اقبال میرے گلے لگ گئے۔۔۔مجھے شرمندگی ہے، میرا آئندہ شعری مجموعہ تمہارے نام ہو گا۔۔۔ ’’توسیع‘‘ واقعی اُنہوں نے میرے نام کردیا۔۔۔ یہ اُن کی بڑائی کی دلیل ہے۔ شکریہ
ظفر اقبال۔۔۔تم جیسا کوئی نہیں ہے
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کے چلی حیات
نکلی برون شہر تو بارش نے آلیا
(بشکریہ:ہم سب)
الطاف فاطمہ اردو ادب کا وہ المیاتی کردار ہے جو ایک مجرمانہ تغافل کا شکار ایک مدت سے ہے اور اُنہیں اس غفلت کی کچھ شکایت بھی نہیں۔ ناموری، شہرت اور سرکاری اعزازات سے وہ یوں بھی گریز کرتی ہیں۔ گوشے میں کُنج گلی کے مجھے آرام بہت ہے۔۔۔وہ کُنج گلی میں ایک مدت سے رہائش پذیر ہیں اور وہاں آرام سے بسرام کرتی ہیں۔۔۔ الطاف فاطمہ کی بے مثال زبان، اظہار اور مشاہدے کی شدت اور بیان کرنے کی قدرت سے کون انکار کرسکتا ہے، ہاں وہ انکار کرسکتے ہیں جو میڈیا پر اپنی ادبی عظمت کی ڈگڈگی بجاتے رہتے ہیں اور اُن کے حواری اُس ڈگڈگی پر ناچتے رہتے ہیں۔۔۔الطاف فاطمہ کسی طور قرۃ العین حیدر، نثار عزیز بٹ، بانو قدسیہ یا جمیلہ ہاشمی سے کم مرتبے پر فائز نہیں ہیں، کہیں کہیں وہ اُن سے بھی بُلند نظر آنے لگتی ہیں۔۔۔اُن کے بارے میں مزید تفصیل پھر کبھی سہی لیکن میں ذکر کرتا ہوں فرخ سہیل گوئندی سے ایک ملاقات کا جس کے دوران میں نے الطاف فاطمہ کی ادبی عظمت سے غفلت کی شکایت کی۔۔۔گوئندی نے کرم کیا اور اُن کے یکے بعد دیگرے دو ناول شائع کردیئے۔ دوسرا ناول ’’خواب گر‘‘ ہے ۔ اگرچہ پہلے شائع ہوا لیکن گمنام رہا، اب گوئندی نے چھاپا تو اُسے پڑھ کر میں بھی حیرت کا شکار ہوا کہ ایسا ناول کیسے پوشیدہ رہا، یا کردیا گیا، میں نے پاکستانی شمالی کے بارے میں بے شمار لکھا لیکن سفرناموں کی صورت، الطاف فاطمہ نے شمال کو اپنے ناول ’’خواب گر‘‘کا لوکیل بنایا اور ایک شاہکار وجود میں آگیا۔۔۔اسے پڑھ لیجئے گا۔۔۔خسارہ نہیں ہوگا۔
اگرچہ میرے بارے میں منادی کر دی گئی ہے کہ میں شاعروں سے بُغض رکھتا ہوں اور اس میں کچھ حقیقت بھی ہے لیکن میں بُرے شاعروں سے بغض رکھتا ہوں، اچھی شاعری سے نہیں۔۔۔ چنانچہ شاعری کی چند اُن کتابوں کا مختصر تذکر کرتا ہوں جو مجھ تک پہنچ گئیں اور اس شاعری نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر میں شاعری کر سکتا تو بس اسی نوعیت کی معجزاتی شاعری کرتا۔
جاوید انور، آسٹریا میں مقیم تھے، لاہور آئے تو رِیڈنگ کے شوروم میں ملاقات ہوئی، طے ہوا کہ اگلی جمعرات کو مل بیٹھیں گے، ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اپنا وعدہ ملاقات کا پورا نہ کرسکے۔۔۔جاوید انور کی ’’برزخ کے پُھول‘‘ دُکھ اور سُکھ کے درمیان کہیں کھلتے ہیں، محبت اور اذیت کے پانیوں میں جنم لیتے ہیں۔ یہ وہ مکھی پہ مکھی مارنے والی شاعری نہیں ہے جو آپ پڑھتے رہتے ہیں۔۔۔واہ واہ، کیا کہنے ہیں، والی داد طلب شاعری نہیں ہے یہ تو برزخ کے پھول ہیں، کبھی جنت کی ہواؤں سے جھومتے ہیں اور کبھی دوزخ کی تپش سے جھلس جاتے ہیں۔
’’اِک بات کہی جائے
اِک نظم لکھی جائے
اِک خوشبو پُھول بنے
اس بھیگی ٹہنی پر
اس رات کے جنگل میں
اِک جگنو چاند بنے
جسے چُوم لیا جائے
تجھے یاد کیا جائے‘‘۔
’’زندگی کے حاشیے پر‘‘ناہید قمر کی حیرت بھری نظموں کا ایک مجموعہ ہے جن کو پڑھتے ہوئے اختر حسین جعفری کی ’’آئینہ خانہ‘‘ نظمیں اور ن ۔م۔ راشد کے کوزہ گر یاد آنے لگتے ہیں۔ راشد تو اُس مقام پر ہیں جہاں سب شاعروں کے پَر جلتے ہیں لیکن ناہید قمر کے پَر نہیں جلے، اگر جعفری اور راشد آس پاس ہوتے تو وہ ناہید قمر کو تھپکی دیتے اور اُس سے نظموں کی فرمائش کرتے۔
’’کسی پچھلی ٹِیس کے پہلو میں، اِک پُھول نیا کِھل جاتا ہے، اِک گھاؤ پُرانا ہوتا نہیں، اِک رنج نیا مل جاتا ہے‘‘۔
’’باب جبریل، حدِ عزازیل پر، رسمِ ایثار کی سعئ پہیم ہوئے، جانمازوں پہ، تسبیح میں، رحل پر، سیمیائی سے موجود پر مکتفی۔ گنبدِ سبز کا حاشیہ ہم ہوئے، ہم پرندے کوئی!
الیاس بابر اعوان کو میں ایک گہرے بھیدوں میں اترنے والے ایک مشکل پسند نوجوان نقاد کے طور پر جانتا تھا۔۔۔اور میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ یہ نہیں جانتا تھا کہ اُس نے فرید الدین عطاّر کی مانند شاعری کے کچھ ایسے پرند اڑائے ہیں جو سچ کی تلاش میں اپنے پَر جلاتے فہم اور شعور سے ماورا وادیوں میں اڑتے چلے جاتے ہیں، الیاس کی شاعری کی توصیف اگر شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی اور ظفر ا قبال نے کی ہے تو اُس پر احسان نہیں کیا، وہ واقعی اس لائق ہے۔ ’’نووارد‘‘کی نظمیں بے جان نہیں ہیں، ہمارے اردگرد اڑان کرتی ہیں۔ اس کے انتساب نے مجھے ایک خوشگوار اور شرمندہ حیرت سے دوچار کیا ’’سرو سانسی کے نام۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ کے ناول ’’خس و خاشاک زمانے‘‘ کا ایک کردار، میں اُس کا شکر گزار ہوں، کیا اُس کی نظموں میں کہیں کہیں سروسانسی کی اس دھرتی سے جُڑی ہوئی سوچ کی مہک آتی ہے۔۔۔شاید وہ خود شاعری کی دھرتی کا ایک سروسانسی ہے۔
ٹانواں ٹانواں لَو ہے جس کی، ریشم ریشم کیس
اُس بنجارے نے اس نیلک پار بسایا دیس
دُھند کے بھیتر ندی کنارے آگ جلا دیں دونوں
اور پھر جسم دھواں ہو جاویں راکھ ہو جاویں دونوں
وہ جو ہمارے ادب میں نوخیزی اور وحشت کے زمانے ہوا کرتے تھے۔ اُن دنوں چار لڑکیاں، ریڈیو پاکستان لاہور کے برآمدوں اور باغوں میں چڑیوں کی طرح چہکتی پھرتی تھیں اور جب انوکھی شاعری کرتی پھرتی تھیں۔۔۔نسرین انجم بھٹی، شائستہ حبیب، سعیدہ تصدق ہاشمی اور شہناز پروین سحر۔۔۔ نسرین نے زبیر رانا سے شادی کرلی اور اُس کی پہلی بیوی کے بچوں کے علاوہ اُسے بھی پالا۔۔۔کینسر سے مرتے ہوئے اُس نے اپنی بہن پروین سے کہا کہ تارڑ صاحب کو یاد دلانا کہ اُنہوں نے میرے اردو کے شعری مجموعے کا دیپاچہ لکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ شائستہ نے فخر زمان سے شادی کی اور وہ بھی کینسر کا شکار ہو گئی۔۔۔ سعیدہ نے حسن نثار سے شادی کرلی، پھر طلاق ہو گئی اور پھر وہ ایک حادثے میں مر گئی۔ شہنازپروین سحر کی سلامتی کی دُعا ہم مانگتے ہیں۔ اُس نے اچھا کیا کہ ٹیلی ویژن کے شاندار پروڈیوسر راؤ ذوالفقار فرخ سے شادی کرلی۔۔۔ فرخ جانے اب کیا ہے لیکن اُن زمانوں میں ایک بلوری آنکھوں والا دل کش اور شرمیلا سا نوجوان ہوا کرتا تھا ۔۔۔ شہناز کی شاعری ’’ایک اور آخری دن‘‘ کی صورت طلوع ہوئی تو مجھے کیسے کیسے زمانے یاد آنے لگے
تمام عمر محبت کو پالتی ہوئی میں
اور آج دل سے محبت نکالتی ہوئی میں
سُلگتی لکڑی پہ روٹی کو سینکتا ترا غم
ہر ایک آنسو کو چُپ چاپ ٹالتی ہوئی میں
ترے غرور کے پتھر سے ضبط سیکھا ہے
وگرنہ چُوڑیوں کے کانچ پالتی ہوئی میں
دبے قدم ہی بڑی ہو گئی تھی میں بھی سحر
بس آٹا گوندھتی کنگن سنبھالتی ہوئی میں
———- ———-
اور اب ہم اس عہد کے اہرامِ شاعری کی بات کرتے ہیں، ظفر اقبال کے کلیات غزل کی پانچویں جِلد ’’اب تک‘‘کی بات کرتے ہیں، ظفراقبال ایک ایسے خوباں ہیں کہ کبھی گلے پڑ جاتے ہیں، کاٹ بھی دیتے ہیں اور کبھی گلے لگ جاتے ہیں اور سب دُکھڑے بھول جاتے ہیں۔۔۔وہ پچھلی نصف صدی سے میرے پسندیدہ شاعر رہے ہیں اور میں نے پہلے بھی اقرار کیا ہے کہ ظفر اقبال کی ہر بے جا طور پر طویل غزل کی شعبدہ بازی میں کم از کم ایک شعر ایسا ہوتا ہے کہ اگر یہ آس پاس کے ’’المشہور‘‘شاعر اُس جیسا ایک شعر پوری زندگی میں کہہ لیں تو اُس کی ڈفلیاں بجاتے پھریں، پر وہ نہیں کہہ سکتے۔۔۔آج سے پچاس برس پیشتر ’’سویرا‘‘میں ظفر اقبال کا ایک عجیب سا شعر پڑھا اور اُس کا گرویدہ ہو گیا۔
میں اتنا بدمعاش نہیں یعنی کُھل کے بیٹھ
چبھنے لگی ہے دھوپ، سویٹر اتار دے
ظفر اقبال نے جانے کیوں اور کس لَہر میں ’’سویرا‘‘ میں میرے ’’برخلاف‘‘ بہت کچھ لکھا، میں جواب دے سکتا تھا پر چُپ رہا کہ میں کبھی جواب نہیں دیتا اور یُوں بھی وہ میرے محبوب شاعر تھے، اپنے محبوب کو جواب دے کر شرمندہ کیوں کرتا۔۔۔سنگِ میل کے نیاز احمد کی وفات پر ظفر اقبال میرے گلے لگ گئے۔۔۔مجھے شرمندگی ہے، میرا آئندہ شعری مجموعہ تمہارے نام ہو گا۔۔۔ ’’توسیع‘‘ واقعی اُنہوں نے میرے نام کردیا۔۔۔ یہ اُن کی بڑائی کی دلیل ہے۔ شکریہ
ظفر اقبال۔۔۔تم جیسا کوئی نہیں ہے
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کے چلی حیات
نکلی برون شہر تو بارش نے آلیا
(بشکریہ:ہم سب)