پڑوسی ملک بھارت سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے فلم بینوں تک یہ خبر پہنچی ہے کہ معروف بھارتی فلم ساز اورہدایت کار ’’سنجے لیلا بھنسالی‘‘ بھی انتہاپسندی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ اس خبر میں مثبت پہلو یہ ہے کہ صرف درگت بنی ہے، اوم پوری کی طرح جان سے نہیں گئے۔ سنجے لیلابھنسالی ایک منجھے ہوئے فلم ساز ہیں، برصغیر کی تاریخ ان کا پسندیدہ موضوع ہے لیکن کیا کِیا جائے وہاں کی اکثریت تاریخ سے نالاں ہے کیونکہ مغل دور ان کی آنکھوں میں کھٹکتاہے۔ اس تمام فضا کے باوجود ،سنجے تاریخ کے موضوع پر فلمیں بناتے رہتے ہیں،جن سے ان کو خاص مالی فائدہ بھی نہیں ہوتا، مگر وہ اپنے شوق کی تکمیل میں سرگرداں رہتے ہیں۔ پوری دنیا میں فلمی صنعت کے سنجیدہ حلقے بھی ان کی کاوشوں کو سراہتے ہیں ، ناپسندیدہ فلم بین اور انتہاپسند قوتیں بھی ،ان کی فلموں کو پسند نہ کریں مگر خاموش رہتے ہیں ۔ لیکن اس بار بھارت کے شہر جے پور میں فلم کی عکس بندی کے دوران سنجے پر ہونے والے حملے نے خاموشی کی روایت کو توڑ دیا، سنجے کے زخموں سے بہنے والے خون میں برصغیر اور بالخصوص مغل دور سے لگاؤ کی تڑپ بھی شامل ہے، جس کی وجہ سے وہ اس موضوع پر تواتر سے کام کرتے رہتے ہیں لیکن اس بار بھارتی انتہاپسند قوتوں نے فلم مکمل ہونے سے پہلے ہی ان کو سبق سکھانے کا عزم کیا۔ یہ حملہ درحقیقت سنجے پر نہیں اس موضوع پر تھا جس پر فلم بنائی جا رہی ہے۔ اس فلم کا نام’’پدماوتی‘‘ ہے اور مرکزی کردار معروف تاریخی حکمراں اور دہلی پر راج پر کرنے والے علاؤالدین خلجی کا ہے۔
یہ فلم ابھی عکس بند ہو رہی ہے کہانی سے بھی کسی کو پوری طرح واقفیت نہیں ، لیکن بھارتی انتہاپسندوں کے دل میں چور انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا وہ ایک طویل عرصے سے سنجے کے تاریخی شعور سے پریشان موقع کی تلاش میں تھے کیونکہ اس سے پہلے بھی سنجے برصغیر کی تاریخ کو اپنی فلموں کا موضوع بنا چکے ہیں جس میں آخری کامیاب فلم ’’باجی راؤ مستانی‘‘ تھی۔ اس کے علاوہ وہ ہم دل دے چکے صنم، دیوداس سمیت کئی مقبول فلمیں بنا چکے ہیں جبکہ بلیک، گزارش، خاموشی جیسی آرٹ سینما کے لوازمات کی حامل فلمیں بھی ان کے تخلیقی تسلسل کا منظرنامہ ہیں۔ ظاہر ہے یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کسی فلم ساز کو اس کے کام سے روکا جائے انتہاپسند قوتیں جہاں بھی ہوں وہ سچ کا گلا گھونٹنے میں دیر نہیں لگاتیں ،تخلیق کاروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں یہ صورتحال صرف پاکستان یا بھارت تک محدود نہیں ،دنیا بھر میں تخلیق کار اس طرح کے رویوں کو سہتے ہیں۔امریکا جیسا ملک،جس کو جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ ہے،اس کے ہاں فلموں پر پابندی کی روایت بہت پرانی اور طویل ہے۔1915ء میں پہلی مرتبہ ’’دی برتھ آف نیشن‘‘ نامی فلم پر پابندی لگائی گئی، عہد موجود تک دو درجن سے بھی زیادہ فلمیں ہالی ووڈ کی اس روایت کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ ان فلموں میں 2008ء میں بننے والی ڈاکیومنٹری نما فلم’’ہیلری‘‘ بھی شامل ہے، جس کو ڈی وی ڈی اور کیبلز نیٹ ورک پر ریلیز کیا جانا تھا، مگر اس فلم کی نمائش تاحال نہیں ہو سکی۔
2014ء میں ہالی ووڈ میں بننے والی ایک فلم ’’دی انٹرویو‘‘ کو شمالی کوریا نے اپنے ہاں ریلیز نہیں ہونے دیا، بلکہ وہاں کی سرکار نے فلم دیکھنے والے کو موت کی سزا کا عندیہ بھی سنایا، کیونکہ اس فلم میں شمالی کوریا میں رائج فوجی آمریت کی اندورنی کہانیوں کو انتہائی مہارت سے فلمایا گیا ہے۔ 2012ء میں ہالی ووڈ کی فلم ’’آرگو‘‘ کو ایران میں ریلیز کی اجازت نہ ملی، مگر وہ ڈی وی ڈی کی شکل میں لاتعداد فروخت ہوئی، اس فلم کا موضوع ،ایران میں انقلاب کے تناظر میں مقید ہو جانے والے امریکی سفارت کاروں کے حقیقی واقعات ہیں۔اس فلم پر ایرانی حکومت نے سرکاری سطح پر بھی اپنا ردعمل دیا۔ بھارت میں بھی متعدد فلموں کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا، ان فلموں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ اکثر وہ فلمیں پابندی کا شکار ہوئیں، جن کو آرٹ فلمیں کہا جاتا ہے، کئی ایک فلموں کو اپنے تاریخی موضوعات کی وجہ سے بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ انتہاپسند قوتیں کہیں کی بھی ہوں،صرف اپنی مرضی کا سچ سننا چاہتی ہیں۔ بھارت میں ’’جودھا اکبر‘‘ جیسی فلم کو بھی کئی ریاستوں میں پابندی کا سامنا ہوا۔ پاکستان میں گزشتہ برس ’’مالک‘‘ فلم بھی پابندی کا شکار ہوئی، بعد میں عدالتی فیصلے کے ذریعے اس کی نمائش کو بحال کر دیا گیا۔ماضی میں معروف پاکستانی فلمساز جمیل دہلوی کی بنائی ہوئی کئی فلمیں پاکستان میں نمائش کے لیے پیش نہیں ہو سکیں، وجہ متنازع موضوعات تھے۔
بھارت میں اوم پوری کی موت کے بعد بالی ووڈ میں سناٹا رہا،اکا دکا آوازیں سنائی دیں،مگر سنجے لیلابھنسالی کے معاملے پر سب بلبلا اٹھے ہیں۔ یہ بالی ووڈ کی منافقت کا اعلیٰ درجہ ہے۔ بے شک سنجے جیسے باصلاحیت فلم ساز کے ساتھ ایسا رویہ نہیں ہونا چاہیے تھا، ان کے تاریخی ادراک کے قائل ،دونوں ممالک کے فلم بین ہیں،مگر بھارت کی انتہاپسند قوتیں سنجے کے تاریخی شعور پر وارکرنا چاہتی ہیں،اب نہ جانے ان پر حملے کے بعد علاؤالدین خلجی کے کردار اور دور پر بننے والی اس فلم ’’پدماوتی‘‘ کی صورت وہی رہے گی،جو تاریخ میں ہے،یا اس کو مسخ کر دیا جائے گا۔ اب یہ امتحان سنجے لیلابھنسالی کا ہے، وہ تمام نظریں ان پر لگی ہوئی ہیں، جن کو سنجے کے تاریخی شعور کا ادراک ہے،ان کا فلم سازی سے سچا لگاؤ اور انصاف سے کام کرنے کی خوبی مجسم ہے۔مستقبل قریب میں دیکھنا ہو گا وہ انتہاپسندوں کی منشا کے ساتھ ہوں گے یا تاریخ کے ہمراہ۔پاکستان ہو یا بھارت ،سچے فلم بینوں کو اس فلم کی نمائش کا انتظار رہے گا اوراس فیصلے کا بھی ۔ بھارت میں ہونے والی اس ثقافتی انتہا پسندی کی جنگ میں کون جیتا،سنجے لیلابھنسالی یا انتہاپسند قوتیں؟
فیس بک کمینٹ