قصہ سننا اور سنانا انسان کا محبوب مشغلہ ہے اور کسی نہ کسی صورت میں تقریباً ہر ملک اور قوم میں موجود رہا ہے۔ اگرچہ تحریر کا فن چار ہزار سال قبل مسیح میں وجود میں آچکا تھا۔ مصر کا قدیم رسم الخط آثار مقدس اور سمیر یائی مسیحی خط اسی زمانہ کے ہیں لیکن پھر بھی کون جانے ہماری بعض لوک کہانیاں دس پانچ ہزار سال پیشتر وجود میں آچکی ہوں جبکہ ہماری دسترس تو ان کہانیوں تک ہے جو ضبطِ تحریر میں آچکی ہیں۔ بہرحال داستانوں کا سنایا جانا ہمیشہ سے مقبول اور پسندیدہ طریقہ رہا ہے اور اسلامی ممالک اور ہندوستان میں تو یہ باقاعدہ فن ہو گیا جسے اہلِ کمال نے پیشہ کے طوراختیار کیا۔ ڈاکٹر گیان چند جین اپنی تحقیقی و تنقیدی کتاب ”اُردو کی نثری داستانیں“ میں عربی اور فارسی قصوں کو اردو افسانہ کے مورث اعلیٰ ثابت کرتے ہیں اور تقریباً تمام ناقدین کے نزدیک اس داستان گوئی کی معراج ”داستان امیر حمزہ“ ہے۔ جو فارسی سے ہی ترجمہ شدہ ہے۔ داستان سے مراد طویل من گھڑت قصہ اور خیالی باتیں ہیں۔ داستان میں طوالت بنیادی اصول کے تحت کارفرما رہی ہے۔ سو اس اصول کے پیش نظر داستان گو قصہ گوئی کے دوران بہت سے واقعات فی الفور بھی شامل کرتا جاتا جو من گھڑت ہوتے اور اسی وقت ذہن و خیال میں در آتے۔ ایسے واقعات میں بوالعجبی اور مبالغہ آرائی کی کارفرمائی ایک لازمہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان واقعات میں سے بیشتر قرین قیاس قرار پاتے تھے جبکہ چند واقعات بہرحال بعید از قیاس کے زمرے میں ہی آتے تھے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال داستانوں کے اہم عناصر ترکیبی یعنی مابعدالطبیعاتی اور مافوق الفطرت عناصر کے ضمن میں بھی درپیش ہوتی تھیں۔ مذکورہ واقعات کی نشاندہی کی جائے تو ایسے عناصر اور واقعات بالعموم داستانوں میں کچھ اس طرح سے شامل ہیں جن، دیو، پریاں، اڑنے والے قالین، سلیمانی سُرمہ، مہلک ہتھیار، جادوگر، جادوگرنیاں، جنترمنتر، شیشے کے گلوب جن میں ساری دنیا نظر آتی تھی۔ کچھ الفاظ یا کوئی جملہ بول کر کھلنے اور بند ہوجانے والے دروازے۔ اڑنے والے جادوئی قالین وغیرہ۔ سب سے پہلے مافوق الفطرت عناصر سے متعلق کچھ بات ہوجائے۔ جن، دیو، بھوت، پریاں اور دوسری مابعدالطبیعاتی ہستیوں اور ایک روحانی دنیا کے وجود کو کم و بیش تمام مذاہب اور معاشروں میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور دوِر حاضر میں جدید تر سائنسی آلات کی مدد سے ان عناصر اور اس غیر مادی و غیر مجسم دنیا کا کھوج لگانے کی باقاعدہ سائنسی انداز سے مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ نہ صر ف ٹیلی ویژن پر مختلف چینلز ایسے پروگرام نشر کرتے ہیں بلکہ اس حوالے سے تحریری مواد پرنٹ اور سوشل میڈیا پر خاصی مقدار میں موجود ہے۔ اسی طرح جادو ٹونا، جنتر منتر، جادوگر اور جادوگرنیاں قدیم ترین ازمنہ اور تہذیبوں میں موجود رہے ہیں۔ بالخصوص پندرہویں صدی میں مغرب اور مشرق میں جادوگرنیوں کو جلا کر مارنا اور سرعام پھانسی لگانا بہت اہم اور خوفناک حقیقتیں ہیں۔ اگرچہ بظاہر داستان خیال و واقعات کو بغیر عقلی جواز اور منطقی توجیہات کے پیش کرنے کا نام ہے۔ جبکہ سائنسی علوم کی رو سے ہر واقعہ کو پیش کرنے اور پرکھنے کے لیے معروضیت، عقلی توجیہہ اور منطقی دلیل بنیادی شرط ہے۔ اس سارے تناظر میں جب داستانوں کو پڑھا جائے یا پرکھا جائے تو یہ بلاشبہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جب یہ داستانیں سنائی جاتی تھیں اس وقت عام سامع کے پاس اس کے غیر تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ ہونے کے باعث ان واقعات کی عقلی اور سائنسی توجیہ کی استعداد نہ تھی۔ لیکن ہمارا داستان گو جو لفظوں اور جملوں کو پوری مہارت، توازن اور تناسب سے برت کر ایک طویل داستان سنانے اور لکھنے کے فن سے مکمل بہرہ مند تھا۔ اس سے متعلق یہ قیاس کرنا کہ وہ دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے سائنسی ارتقاءسے متعلق قطعی طور پر نابلد رہا ہوگا ہر گز درست نہ ہوگا۔ بلاشبہ آج یورپ اور مغرب سائنسی علوم، ایجادات اور دریافتوں کے اعتبار سے مسلم امہ سے صدیوں آگے نکل چکے ہیں لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آٹھویں صدی سے لیکر بارہویں صدی تک کے دور کو یورپ کا ”ازمنہ تاریک“ (Dark ages) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اہلِ یورپ کے لیے یہ علمی لحاظ سے تاریک اور جمود کا دور تھا۔ جبکہ اسی دور میں عرب اور غیر عرب مسلمان سائنسدان سائنس کے میدان میں اپنے عروج کی انتہاﺅں کو چھو رہے تھے۔ مسلمان اس دور میں ترقی یافتہ تھے اور یورپ پسماندہ۔ آج جب کہ ہم اس دور کے مغربی سائنسدانوں کا موازنہ آٹھویں سے بارہویں صدی پر محیط دور کے مسلم سائنسدانوں سے کریں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اس دور میں اگرچہ سائنسی ایجادات کی تعداد کم تھی لیکن مسلم سائنسدان سائنس کے میدان میں یورپی اور مغربی سائنس دانوں سے بہت آگے تھے۔ آج یورپ مسلم سائنس دانوں کی ایجادات اور دریافتوں کا سہرا مختلف حیلوں، بہانوں، جھوٹے دعووں اور پروپیگنڈوں کے ذریعہ اپنے سرباندھتا ہے لیکن اگر ہم اسلام کے عہد زریں خلافت راشدہ سے لے کر مسلمانوں کے عروج کے رو بہ زوال ہونے تک کے ادوار پر نظر ڈالیں تو اس بات سے انکار ناممکن ہے کہ اگر دنیا خصوصاً مغربی دنیا تعصب اور تنگ نظری کی عینک اتار کر حقیقت پسندی اور حق شناسی کی نگاہ سے دیکھیں تو مسلم سائنسدانوں کے سائنسی کمالات انہیں محو حیرت کر دینے کے لیے کافی ہیں۔ اسلامی محققین اور مفکرین نے ایسی اشیاء کی ایجاد کی بنیاد ڈالی جن کے بغیر آج کی جدید سائنسی دنیا کا تصور بھی محال ہے تو اگر مسلم سائنس دانوں کو آج کی جدید سائنسی دنیا کا بانی اور موجد کہا جائے تو کسی بھی طرح غلط نہیں ہے۔ اب اس سارے تناظر میں ہم داستانوں کے کچھ محیرالعقول واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔ جن کو اب تک محض خیالی اور من گھڑت کیا جاتا رہا ہے لیکن مسلم سائنس دانوں کی حیرت انگیز سائنسی ایجادات اور آج کے دور میں یورپ اور مغرب کی حیرت انگیز سائنسی ترقی کے تناظر میں داستانوں کے مذکورہ واقعات کی بھی کچھ نہ کچھ سائنسی منطقی اور عقلی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں چند مثالیں تو بلاجھجک پیش کی جا سکتی ہیں۔ داستانوں میں جادوگروں کے جادو کے زور سے آسمان پر مختلف رنگوں کے ابر کے ٹکڑے نمودار ہو جاتے ہیں۔ جن سے کبھی تیر و خنجر اور کبھی زہریلی گیس اور آگ برستی ہے۔ دورحاضر میں ہوائی جہاز کی ایجاد کو پیش نظر رکھیں لیکن ہوائی جہاز کی ایجاد اور اس سے پہلے اگر تاریخ کا جائزہ لیں تو امریکا کے رائٹ برادز سے ایک ہزار سال قبل اندلس کے ایک مسلم آسٹرونامر، میوزیشن اور انجینئر عباس ابن فرناس نے سب سے پہلے ہوا میں اڑنے کی کوشش کی۔ پھر اس نے گلائیڈر سے ملتی جلتی ایک میشن بنائی جس کے ذریعہ اس نے قرطبہ کے ایک پہاڑ سے پرواز کی کوشش کی۔ یہ فضائی مشین اس نے ریشم اور عقاب کے پروں سے تیار کی تھی اور وہ لگ بھگ دس منٹ ہوا میں اڑتا رہا۔ اب اس سارے تناظر میں داستان گویوں کا پروں کی مدد سے اڑنے والے جنوں، پریوں اور دیووں کے قصے سنانا کوئی حیرت کی بات نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح داستانوں میں خودبخود اڑنے والے قالینوں اور آج ڈرون جہازوں (بغیر پائلٹ چلنے والے) میں کسی نہ کسی حد تک مماثلت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح داستانوں میں شیشے کا ایک گلوب ہوتا ہے جس میں جادوگر یا جادوگرنیاں نہ صرف ان کے محل کی طرف آنے والے اشخاص کو پوری طرح دیکھ لیتے ہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی حصہ کو شیشے کے گلوب میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اب ذرا آج کے CCTV کیمروں، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر اور سمارٹ فونز کے محیر العقول کمالات کو پیش نظر رکھیں اور پھر اس حقیقت کو جانیں کہ علم بصریات پر دنیا کی سب سے پہلی اور شاہکار تصنیف ”کتاب المناظر“ ابن الہیشم نے لکھی اس نے لینس (Lens) کی میگنی فائنگ (Magnifying) پاور کی بھی تشریح کی۔ عدسوں پر اس کی تحقیق اور تجربات سے یورپ میں مائیکرو سکوپ اور ٹیلی سکوپ کی ایجاد ممکن ہوئی اس طرح اس نے محراب دار شیشے پر ایک نقطہ معلوم کرنے کا طریقہ دریافت کیا جس سے عینک کے شیشے دریافت ہوئے تھے اور آج سائنس گوگل (Google) عینک کی ایجاد کی منزل تک پہنچ گئی ہے۔ اب گوگل عینک کی کرامات ملاحظہ فرمائیں تو ہماری داستانوں میں سلیمانی سرمہ کی کرامات کو ہر گز مبالغہ پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کا سب سے پہلا کیمرہ یعنی پن ہول کیمرہ بھی ابن الہیشم کی ہی قابلِ فخر ایجاد ہے۔ بہت عجیب لگتا تھا کچھ عرصہ پہلے تک علی بابا چالیس چور کی داستان سنتے ہوئے کہ علی بابا کہتا ہے ”کھل جا سم سم“ اور دروازہ کھل جاتا ہے اور علی بابا کہتا ہے ”بند ہو جا سم سم“ اور دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ آج کے دور میں موبائلز اور کمپیوٹر وغیرہ میں Lock اور Voice Lock اور Password ہوتے ہیں اسی طرح voice texting بھی آج عام بات ہے۔ اسی طرح داستانوں میں شیشہ کے گلوب میں دوسرے فریق کو دیکھ کر اس سے گفتگو کرنے کا ذکر بھی داستانوں میں ملتا ہے جادو اور جنترمنتر کے زور سے ایک پرندہ بھی داستانوں میں بنایا جاتا تھا جو لمحوں میں ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے دور دراز کی خبریں لے کرآتا تھا۔ آج کے دور میں ٹیلی فون، وائرلیس اور پھر دور حاضر میں سکائپ، میسنجر وغیرہ پر video calls نے اس امر کو بھی ممکن بنا دیا ہے۔ اس طرح داستان میں جادوگر آگ کے گولے پھینک کر مکمل تباہی و بربادی پھیلا دیتے تھے اور سب کے لیے حیران کن امر تھا۔ آج کل کے دستی بم، ریموٹ کنٹرول بم اور ایٹم بم اور ان کے ذریعہ پھیلنے والی تباہی و بربادی کو ہمارے داستان گو دیکھ لیتے تو صدمے اور حیرت کی شدت سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ اس نوع کے محیر العقول واقعات سے بھرپور مثالیں ہمیں داستانوں میں باآسانی مل جاتی ہیں۔ جنہیں کچھ عرصہ پہلے تک محیر العقول، خیالی اور من گھڑت قصوں میں شمار کیا جاتا تھا لیکن دورِ حاضر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی کی بدولت ناممکنات کو ممکنات میں تبدیل کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہی اور ہمارا داستان گو تب بھی سائنس کی ابتدائی ایجادات اور دریافتوں سے یقیناً کسی نہ کسی طور اور کسی نہ کسی حد تک ضرور واقف رہا ہوگا۔ ان سب واقعات اور چیزوں کو محض اس کے ذہن کی کارستانی، خیالی اور من گھڑت، جھوٹی باتیں قرار دینا کم از کم آج کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں درست نہ ہوگا۔ بلکہ اس سارے تناظر میں اور توجیہات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا بھی غالباً بے جا نہ ہو گا کہ ”داستان“ کی مروجہ تعریف ”یعنی خیالی، جھوٹا اور من گھڑت قصہ“ میں مکمل نہیں تو کچھ نہ کچھ تبدیلی کر لینی چاہیے اور ایک نئی اور موجودہ سائنسی دور سے مماثلت اور مطابقت رکھتی ہوئی تعریف متعین کرنی چاہیے۔
فیس بک کمینٹ