مجھے یہ اقرار کرنے میں کچھ تامل نہیں کہ میرے انسانی نظام میں کچھ ایسا خلل ہے کہ مجھے انسانوں کی نسبت جانور زیادہ پسند ہیں۔ نہ صرف ان کی خصلت‘ طرز زندگی بلکہ ان کی شکلیں زیادہ پسند ہیں۔ مجھے ہرگز کسی کی دل آزاری مقصود نہیں لیکن آپ خود انصاف کیجیے کیا آج کے سیاسی سربراہوں اور ان کے حواریوں کی نسبت کچھ جانور اور پرندے وغیرہ زیادہ خوش شکل نہیں ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سفید برفانی الو دیکھا ہے۔ سبحان اللہ کیا آنکھیں ہیں اور کیسی متنانت بھری شکل ہے۔ کسی بھی لیڈر سے موازنہ کر لیں برفانی الو کے نمبر زیادہ ہوں گے۔ اچھا جب میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ کیا آپ نے کبھی برفانی الو دیکھا ہے تو آپ نے غیر ارادی طور پرمیری طرف کیوں دیکھا تھا! حضور کہاں میں اور کہاں برفانی اُلو۔ آپ نے کبھی نہ کبھی تو چڑیا گھر میں لُدھر کو ڈبکیاں لگاتے دیکھا ہو گا۔ کیا شاندار جانور ہے جب پانی سے باہر آتا ہے تو اس کی بھیگی ہوئی مونچھیں دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے جب کہ ہمارے اکثر لیڈران کرام کے چہروں پر ناگواری اور قبض کے آثار ہوتے ہیں۔ آئندہ الیکشن میں کسی لُدّھر کے حق میں نعرے لگائیے کہ ساڈھا لدھر آوے ای آوے ۔ ساڈھا لدھر شیر اے باقی ہیر پھیر ہے۔ جانوروں کے ساتھ ہمہ جہتی کا جذبہ میرے ادب میں بھی کارفرما ہے۔ میری بہت سی کتابوں کے نام جانوروں اور پرندوں کی شخصیات سے مستعار لئے گئے ہیں۔ مثلاً ‘‘شتر مرغ ریاست‘‘ فاختہ‘ پکھیرو‘ پرندے ‘ منطق الطیر جدید‘ اُلو ہمارے بھائی ہیں‘ گدھے ہمارے بھائی ہیں‘ وغیرہ ۔ ان سب میں سے الو ہمارے بھائی ہیں کی مقبولیت نے مجھے حیران کر دیا۔ ایڈیشن پر ایڈیش چلے آ رہے ہیں حالانکہ یہ کتاب بھی اتنی ہی اچھی یا بری تھی جتنی بقیہ جانور کتابیں۔ اس پر ایک محقق دوست نے بتایا کہ اس غلط فہمی میں نہ رہنا کہ یہ تمہاری تحریر کا کمال ہے۔ یہ اس لئے زیادہ فروخت ہوتی ہے کہ بہنیں اپنے بھائیوں کو ان کی سالگرہ کے موقع پر یہ کتاب ‘‘الو ہمارے بھائی ہیں‘‘تحفے کے طور پر دیتی ہیں جب کہ بھائی اپنے بھائیوں کو ڈرتے ڈرتے کہ وہ اگر بڑے ہوں تو پھینٹی بھی لگا سکتے ہیں گدھے ہمارے بھائی ہیں‘ پیش کرتے ہیں ۔اسی لئے یہ اس کی نسبت کم فروخت ہوتی ہے۔
آج اگر میں جانوروں کی جانب سے بے پناہ ملتفت ہو رہا ہوں تو اس کا تمامتر کریڈٹ ایک مرغ کو جاتا ہے‘ ایک فرانسیسی مرغ جس کا نام موریس ہے ‘اس کو جاتا ہے جس نے پورے فرانس میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ انقلاب فرانس کے بعد یہ شائد پہلا موقع ہے کہ اہل فرانس نے اس مرغ کے حقوق کے لئے ‘اس کی آزادی اظہار کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی ہے۔ فرانس کے سمندروں میں ایک جزیرہ سینٹ پیٹر آلرون نام کا ہے جس کی آبادی بائیس ہزار سے بھی کم ہے۔ گرمیوں میں وہاں سیاحوں کی یلغار ہو جاتی ہے اور آبادی کم از کم بیس گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ ایک مقامی خاتون کورین نے ایک نہائت شاندار عالی ظرف دمکتے بھورے رنگ کا مرغ پال رکھا ہے جس کی کلغی سرخ رنگ کی ہے۔ خاتون اس مرغ پر جان دیتی ہے۔ ویسے اگر ایسا مرغ ہمارے ہاں ہوتا تو ہم اس کی جان لے لیتے اور اس کی کڑاہی بھون لیتے کہ ہم لوگ چلتے پھرتے زندہ مرغ کو بھی روسٹ شدہ حالت میں دیکھتے ہیں۔ ماریس بھی ایک مرغ ہونے کی حیثیت سے صبح سویرے بیدار ہو کر گلا پھلا پھلا کر ککڑوں کوں کرنے لگ جاتا ہے اور جب تک پورا محلہ نہ جاگ جائے وہ اس عمل میں مشغول رہتا ہے۔ مقامی خاتون کورین کے برابر کے مکان میں ایک فرانسیسی سیاح خاندان نے آ بسیرا کیا۔ وہ چھٹیاں منانے کے موڈ میں تھے۔ رات دیر تک موج میلہ کرتے سرخ وائن نوش کرتے اور جب بعدازاں سونے کی کوشش کرتے تو برابر میں موریس صاحب یعنی مرغ صاحب پر پھڑ پھڑا کر اذانیں دینے میں جت جاتے ۔ان سیاحوں نے بہتیری کوشش کی کہ وہ چپ ہو جائیں اور انہیں سونے دیں پر وہ مرغ کیا جو سویرے سویرے ککڑوں کڑوں کر کے اپنی مردانگی کا اظہار نہ کرے۔ چنانچہ انہوں نے تنگ آ کر مقامی خاتون پر مقدمہ دائر کر دیا کہ ہمارے بھی کچھ حقوق ہیں‘ فرانسیسی آئین کے تحت اپنے مرغ کو یا تو منع کرو کہ وہ سویرے سویرے دنگا نہ کرے یا پھر اسے کسی اور مقام پر منتقل کر دو۔ جونہی اس کیس کی خبر قومی پریس کی زینت بنی پورے فرانس میں موریس مرغ کے حق میں مظاہرے ہونے لگے کہ یہ آزادی اظہار پر حملہ ہے۔ ایک مرغ کی زبان بندی کرنا بدترین ظلم۔ مرغ اگر ککڑوں کڑوں نہیں کرے گا تو مرغیاں اس کی جانب کیسے ملتفت ہوں گی اور اگر مرغیاں رجوع نہیں کریں گی تو مرغیوں کی نسل کیسے آگے چلے گی۔ اس دوران دیہات سدھار قسم کی تنظیمیں بھی صدائے مرغ کی حمائت میں سرگرم عمل ہو گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مرغوں‘ پرندوں اور حیوانوں کی آوازیں دیہاتی ثقافت کی ترجمانی کرتی ہیں۔ ان پر پابندی اس ثقافت کا گلا گھونٹنے کے برابر ہے۔ خبردار جو کسی نے موریس مرغ کا گلا گھونٹا تو ۔کل کلاں یہ شہر والے کہیں گے کہ گدھے بھی ڈھینچوں ڈھینچوں نہ کریں۔یوں ان دنوں موریس فرانس کا سب سے زیادہ پہچانے جانے والا مرغ ہو چکا ہے۔ وہ اداکارہ برجٹ ہارڈو سے بڑھ کرپاپولر ہو چکا ہے۔ لوگ اس کی تصویریں اٹھائے پھرتے ہیں۔ جانے کیوں مجھے یہاں رویت ہلال کمیٹی یاد آ رہی ہے اور وہ بڑھیا یاد آ رہی ہے جس نے گاؤں والوں سے ناراض ہو کر اپنا مرغ بغل میں دابا اور رخصت ہوتے ہوئے کہنے لگی میرا مرغ نہیں ہو گا تو دیکھوں گی کہ اس گاؤں میں صبح کیسے ہوتی ہے۔ رویت ہلال کمیٹی والوں نے بھی چاند بغل میں داب رکھا ہوتا ہے کہ ہم چلے‘ دیکھیں گے ہمارے بغیر عید کیسے ہوتی ہے۔ یوں تو میری زندگی میں خواتین کے علاوہ بہت سے مرغ بھی آئے ہیں اور ان میں چکن کڑاہی والے مرغ شامل نہیں ہیں۔ لیکن ان میں سرفہرست مسٹر ٹوبی ہے۔ ایک شاندار کلغی والا دراز قامت اپنی مردانگی پر نازاں متکبر مرغ ۔
ان دنوں میں چند روز کے لئے اپنے ایک عزیز کے ہاں مانچسٹر میں مقیم تھا۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ وہ قدیم وکٹورین مکان14باربرا سٹریٹ پر واقع تھا۔اس پرانے مکان میں جتنے لوگ بھی رہتے تھے مزدور پیشہ تھے یا گھوم پھر کے خواتین کی جرابیں وغیرہ فروخت کرتے تھے۔ کمروں میں بچھے بستر کبھی فارغ نہ ہوتے۔ ڈے شفٹ پر جانے والے صبح بیدار ہوتے تو نائٹ شفٹ والے فارغ ہو کر واپس آتے اور گرم شدہ بستروں میں گھس جاتے۔ ویک اینڈ پر میرے عزیز مانچسٹر سے باہر جاتے اور کسی کسان سے چار پانچ درجن مرغیاں خرید کر لے آتے اور انہیں خفیہ طور پر کوئلے والے تہہ خانے میں روپوش کر دیتے‘ چونکہ جانوروں کو ’’ہلاک ‘‘ کرنے پر پابندی تھی۔ اس جرم پر سزا بھی ہو سکتی تھی چنانچہ مرغیوں کو چوری چھپے حلال کر کے ان کے پر اور کھال وغیرہ پائیں باغ میں دفن کر دیے جاتے تاکہ جرم کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔ ایک مرتبہ غفلت ہو گئی اور مرغیوں کے پر وغیرہ ہوا کے دوش پر سوار ساتھ والے گھر میں جاگرے جہاں ایک بڑھیا مقیم تھی۔ اس نے متعلقہ حکام سے شکایت کر دی کہ میرے ہمسائے میں کوئی غیر ملکی وحشی سے لوگ ہیں جو جانوروں کو ہلاک کر کے جانے کون سے جادو ٹونے کرتے ہیں۔ اگلے روز ایک صاحب تھری پیس سوٹ اور باؤلر ہیٹ میں ملبوس تفتیش کے لئے وارد ہو گئے۔ دروازے پر دستک دی۔ ان کا نام مسٹر ٹوبی تھا۔ (جاری)
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)