یہ موسم نگھی دھوپوں کے، سرد شاموں کے، دھند بھرے اجالوں کے اور سنہری کرنوں اور کہر سفید راتوں کے بیتے جاتے تھے۔ یہ گزر جانے تھے اور تب گرمی کا قہر نازل ہونا تھا تو ان موسموں کی قدر کرو، نکل چلو اس دھول بھرے، زہر آلود شہر کی فضاؤں سے اور بسنت کے یہ دن گزارو پیار کے پہلے پنجاب کے کسی ہرے بھرے ررمان بھرے تاریخی مقام میں۔۔۔ میں تو ٹلہ جوگیاں کی چوٹی پر جانے کے لیے مرا جاتا تھا یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا اب بھی وہاں جوگی گورکھ ناتھ اور جوگی بالناتھ کے کچھ آثار ہیں۔ جہاں عظیم شاعر ہری بھرتری آیا تھا جس کا تذکرہ علامہ اقبال نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں کیا ہے اور اس کے ایک شعر کا ترجمہ کر کے اسے زندہ جاوید کرد یا ہے۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
ٹلہ جوگیاں برصغیر میں جوگی حضرات کا سب سے قدیم ہزاروں برس قدیم مسکن جو 1947ء میں بے آباد ہو گیا۔۔۔ جہاں سکندر اعظم، اکبر، جہانگیر، بابا گورو نانک، مہاراجہ رنجیت سنگھ گئے۔۔۔ پورن بھگت نے حاضری دی اور میرے لیے اس ٹلے کی اہمیت اس لیے تھی کہ وہاں رانجھا، ہیر کے عشق میں فنا، پہنچا۔۔۔ بالناتھ کو مرشد مان کر اپنے کان پھڑوائے اور اُن میں بالیاں پہن کر ہیر کے در پر آن کھڑا ہوا۔
کنیں مندراں پا کے، متھے تلک لگا کے
نیں میں جاناں جوگی دے نال۔۔۔
’’نہ تارڑ صاحب۔۔۔‘‘ عادل نے پیار سے کہا ’’آپ کے سر جن نے کہا ہے ناں کہ آئندہ آپ نے پہاڑوں پر نہیں چڑھنا ورنہ ہر نیا نمودار ہو جائے گا اور مجھے آپ کا ایک اور آپریشن کرنا پڑے گا تو ٹلہ جوگیاں نہیں جاناں۔۔۔ جوگی نال نہیں جاناں۔۔۔‘‘
’’تو پھر یہ بسنت رُت یونہی لاہور میں ضائع کر دیں؟ کہیں تو جائیں؟‘‘
’’میں آپ کو دانا باد لے چلوں گا۔۔۔ تیار ہو جائیں‘‘
’’مرزا صاحباں والے دانا باد؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ وہاں اُن دونوں کی قبریں آج بھی موجود ہیں۔۔۔ حاضری دیں گے اور پھر میرا شکاگو کا دوست نذیر چوہدری ہمیں اپنے گوجر چک لے جائے گا۔۔۔‘‘
’’یہ کونسے چوہدری ہیں؟‘‘
’’تارڑ صاحب۔۔۔ بیس سے تیس برس پیشتر امریکہ گیا، پڑھا لکھا کم تھا لیکن سمجھ بوجھ میں سیانوں کے کان کترتا تھا۔۔۔ دنوں میں کروڑ پتی ہو گیا، یونہی گالف کھیلنے لگا تو پوری ریاست کا چیمپئن ہو گیا۔ سکوائش آزمائی تو اُس میں بھی امریکیوں کو ہرا کر ایک اور چیمپئن ہو گیا۔ اُس نے ایک چک میں اپنی زمین پر ایک شاندار سکول تعمیر کیا ہے جس میں سیکڑوں بچے مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اُن کی وردیاں، کتابیں، جیب خرچ، خوراک، سب کچھ اس ’’امریکی‘‘ چوہدری کے ذمے ہے۔۔۔ تو پھر چلیں دانا باد؟‘‘
ماڈل ٹاؤن پارک کے ساتھیوں کا ایک غول دھڑا دھڑ اس نویں نکور کوچ میں داخل ہو گیا جس کا انتظام عادل نے کیا تھا البتہ دیگر انتظامات انواع و اقسام کے گیسو دراز ہمہ وقت تسبیح کے دانے پھرولتے حاجی امین نے کیے تھے۔۔۔ ایک تو حاجی اور پھر گیسو دراز اور پھر تسبیح کرتے ہوئے، سبحان اللہ۔۔۔ عثمان پیر زادہ، عادل کا جگری یار فرنچ کٹ ڈاڑھی، بالوں کی چٹیا، سر پر فرانسیسی بیری ٹوپی، آنکھوں پر سیاہ چشمہ، سگار پھونکتا کسی سیکسپیرین ڈرامے کا ولن لگ رہا تھا۔۔۔ وہ شائیلاک بھی ہو سکتا تھا اور جیک نکلسن بھی۔
ہم مدتوں لاہور شہر کی شیطان آنتوں میں سفر کرتے بالآخر کھلی فضا میں آئے اور پھر ہر جانب سے ہریاول کے سمندر امڈتے ہوئے کوچ کی کھڑکیوں میں سے آنے لگے اور ہم سب رنگے گئے۔ ہم نے اس ہریادل کو اپنے اندر سمویا گہرے گہرے سانس لیے، ہم جو شہر کی آلودگی میں حنوط ہو چکے تھے یکدم زندہ ہو گئے اور چہکنے لگے۔۔۔
کوچ کی پچھلی نشستوں پر براجمان حضرات، ڈاکٹر نسیم، شیخ ندیم، شہزاد، قریشی صاحب اور خصوصی طور پر چوہدری سرور کچھ زیادہ ہی چہکنے لگے بلکہ باقاعدہ گیت گانے لگے۔۔۔ سرور نے سینے پر دہتڑ مار کر کہا ’’ہائے ہائے، صاحباں نے بہت برا کیا‘‘ کسی نے پوچھا ’’ صاحباں نے کیا کیا؟‘‘ تو کہنے لگا ’’اس نے اپنے بھائیوں شمیر خان اور میر خان کو گھوڑیوں پر سوار اپنی جانب آتے دیکھا تو مرزے کا ترکش جنڈ پر ٹانگ دیا تاکہ وہ بے مثل تیر انداز اس کے بھائیوں کو مار نہ دے۔۔۔ اور مرزا مارا گیا۔۔۔‘‘
اس پر نسیم نے واویلا کیا ’’یار کو مروا دیا۔۔۔ ہائے ہائے۔۔۔ تبھی تو مرزے نے فریاد کی تھی کہ
برا کیتا ای صاحباں میرا ترکش ٹنگیا جنڈ
مینوں باہجھ بھراواں ماریا میری ننگی ہو گئی کنڈ
اس پر میرے قریب براجمان مجھ سے بھی عمر رسیدہ نہایت شاندار شاعر ڈاکٹر انیس احمد کہنے لگے کہ اس میں صاحباں کا کیا قصور۔۔۔ میرزے کو پہلے سے خبردار کر دیا گیا تھا کہ عورتوں سے یاری بری ہوتی ہے کہ ان کی عقل ان کے پاؤں میں ہوتی ہے۔ ہنس ہنس کر یاریاں لگاتی ہیں اور پھر رو رو کر سارے جہاں کو بتا دیتی ہیں۔
اس دوران پچھلی نشستوں پر کچھ مزید غل غپاڑہ ہوا تو میں نے پلٹ کر حاجی امین سے پوچھا ’’اے حاجی تو نے ان لوگوں کو کیا کھلا پلا دیا ہے جو یوں سچل سرمست ہو رہے ہیں‘‘ تو حاجی صاحب اپنی نشست سے اٹھ کر ہاتھ باندھ کر کہنے لگے ’’ مرشد۔۔۔ میں نے انہیں صرف چکن سینڈ وچ پیش کیے ہیں اور اس کے ساتھ پیپسی کولا پلایا ہے۔۔۔ قسم لے لیجیے۔۔۔ یہ بس موج میں آ گئے ہیں‘‘۔
اور واقعی سردیوں کی اس دھند بھری سویر میں جب کہ ہریاول کے سمندر کوچ کی کھڑکیوں میں سے امڈتے ہمیں بھگوتے تھے ہم سب موج میں آ گئے تھے۔ اور ہم پنجاب کی رومانوی داستانوں کی سب سے بیباک اور اتھری ہیروئن صاحباں سے ملنے جا رہے تھے جس کے حسن کا تذکرہ حافظ برخوردار ایسا عظیم شاعر جب کرتا ہے تو اسے دنیا کی سب سے دل کش عورت بنا دیتا ہے کہ اس کا حسن ایسا تھا کہ حوریں بھی اسے دیکھ کر گھونگھٹ اوڑھ لیتی تھیں اور اس کی آنکھیں باز کی سرخ آنکھوں ایسی تھیں جو ہر دل میں شگاف کر کے اس کا خون پی جاتی تھیں۔
فیس بک کمینٹ