کسی کے لئے کسی بات کو جاننا دورِ حاضر میں کوئی مشکل کام نہیں رہا، ہاں البتہ اس کے لئے آپکے پاس ذرائع ہونا ضروری ہے جس میں سب سے اول "انٹرنیٹ” کی سہولت ہے، اس سہولت کا آپ کے پاس ہونا اس بات کی دلیل سمجھی جا سکتی ہے کہ اس کو استعمال کرنے والے آلات بھی میسر ہونگے۔ آپ اگر اپنے آپ کو مختلف "سماجی ویب سائیٹس” سے وابسطہ کیئے ہوئے ہیں تو معلومات خود بخود آپ کے پاس پہنچ رہی ہیں۔ ابھی آپ نے ایک خبر پر سے دھیان ہٹایا نہیں ہوتا کہ کوئی نئی خبر یا یہی خبر تازہ بن کر پھر سے آ جاتی ہے۔ دنیا جانکاری کے حوالے سے بے ہنگم ہو چکی ہے۔ مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ معلومات تک رسائی کی اتنی آسانیوں کے باوجود بھی وکی لیکس، پانامہ لیکس اور دیگر مختلف لیکس بھی موجود ہیں اور یہ لیکس اپنی اہمیت منوانے میں کامیاب بھی ہوئی ہیں۔ جیسے ہمارے وزیرِاعظم صاحب کا پانامہ کیس میں نام آنے کی وجہ سے وہ کچھ سامنے آچکا ہے جو کہ شائد کوئی خفیہ ادارے بھی معلوم نہیں کر سکتے تھے۔ معلومات کے اس نہ تھمنے اور نہ سمٹنے والے طوفان کی بدولت سب سے بڑا نقصان جس کا سامنا ہم سب یعنی ساری دنیا کے لوگوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے وہ یہ ہے کہ ہم "بے حس” ہوتے جا رہے ہیں، حادثے، سانحے، خوشی کچھ بھی تو اپنا کوئی تاثر نہیں چھوڑ رہا، جز وقتی احساس۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب آپ کو کسی بھی بات کا علم اور گمان پہلے سے ہو جائے تو اس کی حقیقت بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔ اس ساری صورتحال کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری لکھنے والوں پر بھی عائد ہوتی ہے کیوں اس معلومات کو عام کرنے میں ان کا کردار سب سے اہم ہے اور یہ کہ انہوں نے لکھ لکھ کر ’’اہمیت‘‘ جیسے لفظ کی اہمیت ختم کردی ہے۔ حالات کو یہاں تک لانے کا بنیادی مقصد آنے والی نسلوں کو "احساس” نامی شے سے آزادی دلانا لگتا ہے تاکہ مشرق اور مغرب کا فرق کم ہوتے ہوتے ختم ہوجائے اور جو رہی سہی مشرقی قدریں باقی ہیں ان کا بھی مدفن بنا دیا جائے۔ ہم لکھنے والوں کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ لکھتے ہوئے اس کا تجزیہ کر لیں کہ ہم جو لکھ رہے ہیں وہ ہم ہی لکھ رہے ہیں کوئی ہم سے یہ لکھوا تو نہیں رہا یا پھر ہم کسی ایسے کی ترجمانی تو نہیں کر رہے جو کسی بھی طرح سے ہمارے ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ ہے یا پھر کسی ایسے کی حمایت میں تو قلم کی روشنائی ضائع نہیں کر رہے جو ہمارے ذہن کو آلودہ کر رہا ہے۔ لکھنے والوں کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ ایسے مقاصد کی تکمیل کیلئے لکھیں جن سے کم از کم معاشرے میں بگاڑ کی کوئی صورت پیدا نہ ہو۔ اندر یا باہر سے ہم سب کسی نہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی تائید کرتے ہیں اور ہمارے لکھنے میں ان کی ترجمانی کا عکس بھی عیاں ہوجاتا ہے۔ ہمارے لئے ہمارا دین، ہمارا ملک بہت اہم ہیں ہمیں اپنی تحریروں پر خود احتسابی کی حد لگانی پڑے گی، اس حد سے ہمارے وطن کو ہمارے پڑھنے والوں بہت فائدہ پہنچےگا اور ماحول میں موجود آلودگی آہستہ آہستہ صاف ہوجائے گی۔ لکھنے والوں پر دورِ حاضر میں بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ ہم کس کیلئے لکھ رہے ہیں۔
فیس بک کمینٹ