چند روز پیشتر ایک نہایت عزیز دوست بے حد پریشانی کی حالت میں میرے ہاں تشریف لائے، رنگت اڑی ہوئی اور اس رنگت میں بھی ہوائیاں اڑتی ہوئیں۔ تشریف لائے اور صوفے پر ڈھیر ہو گئے اس روز لاہور کا درجہ حرارت چھیالیس سے تجاوز کر چکا تھا اور لاہور کی سب چیلیں اپنے اپنے انڈے چھوڑ چکی تھیں بلکہ ان میں سے جو طاقت پرواز رکھتی تھیں مری یا نتھیا گلی کوچ کر گئی تھیں۔ میں نے سوچا کہ ہو نہ ہو میرے دوست پر بھی گرمی کا اثر ہوگیا ہے چنانچہ میں نے فوری طور پر پہلے تو انہیں نمکین لسی کے دوچار گلاس پلائے اور پھر ان کا منہ میٹھا کرنے کی خاطر باداموں کے شربت کا ایک گلاس پیش کیا ان مشروبات کو غٹا غٹ چڑھا جانے کے باوجود ان کی ظاہری حالت میں کچھ فرق نہ پڑا تو میں نے پوچھا’’ اجی حضرت خیریت تو ہے ناں‘‘
وہ ہکلاتے ہوئے بولے‘‘ تارڑ صاحب ، خیریت کہاں ہونی ہے میں تو لٹ گیا، آپ جانتے ہیں کیا ہوا؟‘‘
میں نے کہا’’ آپ کو میں نے یہ جو نہایت مہنگے مشروبات پلائے ہیں خاص طور پر باداموں کا شربت جو میں نے خاص طور پر حیدر آباد سے منگوایا ہے تو صرف ا س لئے کہ آپ بتائیں کہ ہوا کیا ہے۔‘‘
مردہ سی آواز میں بولے’’ میری بیٹی حقہ پینے لگی ہے‘‘
’’ہائیں، مجھے بھی دھچکا سا لگا اپنی طاہرہ بیٹی حقہ پینے لگی ہے یعنی گھر میں ایک عدد حقہ لے آئی ہے اسے تازہ کرتی ہے، ہتھیلیوں میں کڑوا تمباکو مسل کر اسے حقے کی ٹوپی کی گردن میں جما کر اس پر کوئلے رکھتی ہے اور پھر یہ لمبے لمبے کش لگاتی نتھنوں میں سے دھواں نکالتی ہے طاہرہ بیٹی۔ چونکہ میرے ابا جی نہایت ذوق وشوق سے حقہ پیا کرتے تھے اس لئے میں اسے تیار کرنے کے مختلف مراحل سے آگاہ تھا۔
’’ نہیں نہیں ابھی تک یہ نوبت تو نہیں آئی ، گھر سے باہر جا کر حقہ پیتی ہے۔’’ آپ کو یہ اندوہناک خبر کس نے دی؟
’’ اس کی ایک سہیلی نے کہنے لگی انکل آج ہم سب پرانی کلاس فیلوز جمع ہو کر ایک نئے ریستوران میں جارہی ہیں آپ پلیز طاہرہ کو بھی ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دے دیجئے میں نے پوچھا بیٹے کھانا کھانے جارہے ہو؟ تو اس نے نہایت سنجیدگی سے کہا کہ وہ بھی کھائیں گے لیکن بنیادی طور پر ہم سب شیشہ پینے جارہی ہیں اب میرے فرسودہ خیال کے مطابق تو شیشہ دیکھا جاتا ہے پیا تو نہیں جاتا اور جب میرے پلے کچھ نہ پڑا تو ہنس کر کہنے لگی کہ انکل شیشہ،جسے آپ لوگ حقہ کہتے ہیں یہ دراصل حقے کا تازہ ترین ماڈل ہے شیشہ اور انکل آپ کے زمانے میں تو صرف کڑوا تمباکو پیا جاتا تھا لیکن اب بڑی ورائٹی ہے مختلف پھلوں اور پھولوں کی خوشبو اور ذائقے والے تمباکو ہوتے ہیں تارڑ یار یہ سن کر تو میری ٹانگوں میں جان نہ رہی اور میں نے پوچھا کہ بیٹے کیا اس حقے میں دھواں بھی ہوتا ہے تو وہ مسکرا کر کہنے لگی اور نہیں تو کیا انکل ہم خوب کش لگاتے ہیں اور ناکوں میں سے دھواں خارج کر کے بہت انجوائے کرتے ہیں اب تم ہی بتاؤ کہ میں کیا کروں؟
تم طاہرہ بیٹی کو سمجھاؤ کہ خبر دار تمباکو نوشی کینسر اور دل کی بیماریوں کا باعث ہے ’’
میں کوشش کر چکا ہوں لیکن وہ جواب میں ثقافتی حوالے دیتی ہے کہتی ہے کہ ایک تو شیشے میں تمباکو کی مقدار نہایت قلیل ہوتی ہے اور پھر یہ تو ہمارے کلچر کا ایک حصہ ہے آپ ہمیں خود ہی تو بتایا کرتے تھے کہ آپ کی پھوپھی جان کھانے کے فوراً بعد ’’ حقہ حقہ ‘‘ کا شور مچا دیتی تھیں کہ بقول ان کے کھانے کے بعد ان کے پیٹ میں ایک گولا سا بن جاتا تھا اور جب تک وہ حقے کے دوچار کش نہیں لگاتی تھیں وہ گولا نیچے نہیں ہوتاتھا پیٹ میں اٹکا رہتا تھا شنید ہے کہ مرحومہ دادی جان بھی حقے کی بے حد شوقین تھیں تو اگر ہم لوگ ہفتے میں ایک آدھ بار کسی شیشہ ریستوران میں جاکر دو چار کش لگا آتے ہیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔
یعنی صرف بیٹی طاہرہ ہی نہیں اس کی سہیلیاں بھی حقہ پیتی ہیں ‘‘اچھا وہ والا شیشہ‘‘ میں بے اختیار مسکرانے لگا میرے ذہن میں جدہ کی وہ شام آگئی جب میرا بیٹا سلجوق میری فرمائش پر مجھے پرانے جدہ کے ایک قدیم محلے میں لے گیا جہاں فٹ پاتھ پر ایک ’’ شیشہ ریستوران‘‘ قائم تھا لوگ قہوے کی چسکیاں لگا رہے تھے اور میزوں کے درمیان میں آراستہ خوبصورت شیشے سے بنے ہوئے حقوں کے کش لگا رہے تھے ایک ویٹر صرف اس ڈیوٹی پر مامور تھا کہ وہ گاہکوں کے لئے بار بار چلمیں تازہ کر کے لاتا تھا اور میں نے افسوس کے ساتھ نوٹ کیا کہ برخوردار جس نے آج تک سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا تھا نہایت اطمینان سے یہ شیشہ حقہ پینے میں مشغول ہو گیا بعد میں میں نے ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی خفیف سی کوشش کی تو مسکرا کر کہنے لگا ابا یہ تو بس شغل میلہ ہے تمباکو نوشی تو نہیں ہے چنانچہ میں نے جدہ کی اس شام کا قصہ اپنے دوست کو سنا کر اس کا غم غلط کرنے کی کوشش کی اسے یہ بھی بتایا کہ یہ شیشہ نوشی کا رواج ادھر عرب شریف کی جانب سے آیا ہے کیونکہ میری اطلاع کے مطابق سعودی عرب کی بیشتر خواتین شیشہ پینے کی شوقین ہیں چنانچہ یہ عین اسلامی ہے لیکن اس کی تسلی نہ ہوئی۔ کہنے لگا کہ بچپن سے یہی پڑھتے آئے ہیں کہ ماں چولہے پر بیٹھی ہے اور باپ بیٹھا حقہ پی رہا ہے یہ تو کبھی نہیں پڑھا کہ باپ چولہے پر بیٹھا ہے اور ماں بیٹھی حقہ پی رہی ہے تب میں نے اسے ایک گرانقدر مشورے سے نوازا، تم سگریٹ تو پیتے ہو تو کیا حرج ہے کہ کسی روز کسی شیشہ ریستوران میں جا کر دو کش شیشے کے بھی لگا لو دیکھو تو سہی کہ اس کا ذائقہ کیا ہے باقاعدہ حقہ ہے یا کچھ اور ہے میرا دوست یہ مشورہ پلے باندھ کر چلا گیا اور دو تین روز بعد موصوف دوبارہ نازل ہوئے تو نہایت شاداب اور پرمسرت کیفیت میں مسکراتے چلے آرہے ہیں دھپ سے سامنے والے صوفے پر بیٹھے اور کہنے لگے لو بھئی میرا مسئلہ تو حل ہو گیا تمہارے مشورے کے مطابق اس شام میں ایک شیشہ ریستوران میں گیا کیا دیکھتا ہوں کہ کیا مرد و زن، کیا چھوٹے بڑے سب کے سب نہایت اشتیاق سے شیشہ پی رہے ہیں دھویں اڑا رہے ہیں میں نے بھی دو چار کش لگائے تو یقین کرو لطف آگیا۔ بے حد فرحت آمیز مشغلہ ہے۔ میں نے سگریٹ چھوڑ دئیے ہیں اور اب صرف شیشہ پیتا ہوں اور جیتا ہوں بلکہ سوچ رہا ہوں کہ روز روز ریستوران میں جانے کی بجائے ایک ذاتی شیشہ خرید لوں۔ گھر بیٹھ کر دونوں باپ بیٹی پیا کریں گے۔ آخر کو یہ ایک اسلامی رواج ہے۔
(بشکریہ:ہم سب)