سورج سے پوچھا گیا ۔۔ لوگ اندھیروں کے عادی ہو چکے ہیں ، تم روشنی کیوں دیتے ہو ؟
جواب ملا ۔۔ یہ میری فطرت ہے
چاند سے سوال کیا گیا ۔۔ظالموں نے تو چاندنی بھی میلی کر دی ،پھر بھلا چاندنی پھیلا کر تجھے کیا ملا ؟
وہ بولا ۔۔ یہی تو میری خوبصورتی ہے ، میں ایسا نہ کروں تو مجھے خوبصورت کون کہے ؟
تو کیا ہم جو اشرف المخلوقات ہیں ، ہمارا کام صرف اندھیرے پھیلانا ہے ؟
کیا ہم صرف دکھ بانٹنے اور رنجشوں کی آبیاری کے لئے اس دنیا میں آئے ؟
اور کیا ہم نے بس نفرتیں ہی تقسیم کرنی ہیں اور جب ہمارا یہ کام مکمل ہو جائے گا تو ہم اس دنیا کو اپنے تعصبات سے آلودہ کر کے چلے جائیں گے ؟
کیا یہی ہے ہمارا مقصدِ حیات ؟
آخر ہماری آنکھ اس کائنات کی لا محدود اور بے کراں وسعتوں کو دیکھنے سے محروم کیوں ہے ؟
ہم کیوں بھول گئے کہ ہمیں ایک خاص مقصد کے لئے عارضی طور پر اس روئے زمین پر بھیجا گیا
ہم بھلا اپنے اندر قید اُس روح کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت کیوں نہیں رکھتے جو اپنا اظہار چاہتی ہے جسے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی جستجو ہے لیکن ہم قدم قدم پر اسے زخمی کرتے ہیں ، اسے قتل کرتے ہیں ۔ ہم انسانوں کے ہی نہیں اپنی روحوں کے بھی قاتل ہیں ۔ ہم نے ناراضی، غصے، نفرت، تلخی، جیسے بھیڑیئے پال رکھے ہیں جو تعصب، نسلی امتیاز ، طبقاتی تقسیم ، فرقہ پرستی، جیسے جرائم اور دہشت گردی جیسے بھیڑیوں کو خوراک مہیّا کرتے ہیں ۔ہم کیوں بھول گئے ہیں کہ دنیا میں پیار، محبت، قربانی، ایثار، فیاضی، ہمدردی جیسے لافانی جذبے بھی موجود ہیں جن کو پروان چڑھا کے ہم اپنی ہی روح کی آبیاری کریں تو ہم اپنے ہی خدوخال کو زندہ رکھیں گے ۔ہم اپنی ہی ذات کا احترام کریں گے روح اور جسم کے درمیان صرف چند سانسوں کا رشتہ ہی تو ہے جس کے بعد ہم نے بھی اُسی بے کراں سمندر کا حصہ بن جانا ہے جس کا ہم محض ایک قطرہ ہی تو ہیں ۔ ہم اپنی”میں“مِیں کیا لئے پھرتے ہیں؟ دنیا کے ڈرامے میں ہمیں بس ایک کردار ہی تو نبھانا ہے اور کردار بھی وہ جو ہماری مرضی کا نہیں ۔ ہم پر کچھ کردار مسلط کر دیئے گئے ۔ ہمیں کچھ بہروپ عطا کر کے انہیںہمارا روپ قرار دے دیا گیا اور پھر کہا گیا دیکھو کیسا روپ آ گیا ہے ۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں ہمیں بہروپ کو روپ سمجھ کر آخری سانس تک قبول کرنا ہوتا ہے ۔ تو کیوں نہ ہم اس بہروپ نگر میں اپنے لئے خود ایک کردار چُن لیں جو ہمارے مٹی کے جسم کو چاند جیسی چاندنی اور سورج جیسی روشنی دے سکے اور پھر ہماری روح خاک کا حصہ نہ بنے زندہ رہے ۔آئیے کچھ تو سفر آسان کریں چھوٹی چھوٹی نیکیاں کر لیں خالقِ حقیقی کی محبت شفقت مہربانی جیسی صفات کو یاد کر کے چھوٹی چھوٹی قربانیاں دے لیں ۔ہنستے ہوؤں کو رلانے کی بجائے کسی روتے ہوئے کو ہنسا دیں کسی کے سر پر ہاتھ رکھ کر محبت کے حسیں لمس کو محسوس کریں کسی کے ساتھ ہنس کے کسی کو اس کے ہونے کا احساس دلا دیں۔ماں باپ سے اس طرح مل لیں کہ انہیں اپنے معتبر ہونے کا احساس ہو۔ استاد کو اٹھ کر سلام کریں کسی کی زیادتی معاف کر دیں۔ہزاروں روپےخود پہ خرچ کریں تو دو چار روپے اپنی روح کی سلامتی کے لئے بھی کسی غریب پرخرچ کر دیں۔زندہ رہیں زندہ رہنے کا احساس دیں ۔انسانی محبتوں کے ذائقے اپنی رگوں میں محسوس کریں ۔ انسانیت کی عزت و حرمت و توقیر پر یقین رکھیں ۔آنکھوں کو وہ اجلے خواب دکھائیں جو روح میں اُتری ہوئی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہوں تو اس دنیا کی مسافت میں ہماری منزل کا یقین بن جائیں ۔جانا تو ہے ہی اور وہ بھی خالی ہاتھ تو پھرکیوں نہ لوحِ زیست پہ اپنا نام ہی لکھ کر جائیں کہ لوحِ ازل پر بھی تو اسی نے پہنچنا ہے جسم نے تو تحلیل ہونا ہی ہے روح کو تو سلامت بھیجیں ۔ روح کی سلامتی کے لئے ہمیں بہروپ نگر سے نکلنا ہو گا بہروپیا بن کر اپنا کردار نبھانے والو ایک کردار اپنی مرضی کا بھی چن لو اور جب تم اپنی مرضی کا کردار چنو گے محبت اور احترام والا کردار مسکراہٹیں اور خوشیاں تقسیم کرنے والا کردار تو پھر وہی تمہارا حقیقی روپ ہو گا اور پھر تمہارے چہرے پر ہی نہیں روح پر بھی ایسا روپ آئے گا کہ سب کہیں گے ’’ دیکھو کیسا روپ آیا ہے ‘‘
فیس بک کمینٹ