’’بڑھتی جاتی دھند تھی اور اس کے پیچھے شہر تھا، پشاور تھا، میں سارا برس اس دھند کا منتظر رہتا ہوں جو ہر شے کو ملفوف کر دیتی ہے، ہمارے گناہوں کو، ہماری محبتوں کو اور ہماری عبادتوں کو، لیکن اس سویر جب بڑھتی جاتی دھند تھی تو اس میں سے میرے اپنے بچوں کے سینکڑوں تابوت ظاہر ہو رہے تھے۔ وہ بھٹکتے پھرتے تھے کہ انہیں قبرستان تک کا راستہ نہ ملتا تھا۔ ان تابوتوں کے اندر جو لاشے تھے وہ لڑھکتے جاتے تھے کہ وہ تابوت بالغ مردوں کے لئے بنائے گئے تھے اور وہ بہت چھوٹے تھے۔ اس لئے لڑھکتے پھرتے تھے۔ اگر دو چار درجن بچے ہوتے تو بھی فوری طور پر ان کے سائز کے تابوت ٹھونک ٹھانک کر تیار کر لیے جاتے، پر وہ تو سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔ اور انہوں نے کچھ خیال نہ کیا کہ فوری طور پر ان کے سائز کے تابوت تو مارکیٹ میں دستیاب نہ ہوں گے، بس مر گئے اور کچھ خیال نہ کیا۔ اور انہیں کس نے مارا، ہم سب نے مل کر انہیں ہلاک کیا، مجھ ایسے ادیبوں نے، سیاست دانوں، صحافیوں اور مقدس ہستیوں نے، جیسے آگاتھاکرسٹی کے ناول ’’مرڈر آن اے اورینٹ ایکسپریس‘‘ میں ایک شخص کو ٹرین میں سوار سب مسافر مشترکہ طور پر خنجر مار کر ہلاک کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی تابوتوں میں لڑھکتے بچوں پر ہم سب نے وار کیا۔ ہم نے تو اپنا مقدس فریضہ سرانجام دیا، زیادتی تو ان کی تھی کہ انہوں نے کچھ خیال نہ کیا کہ ان کے سائز کے تابوت بازاروں میں نہیں بکتے۔ ’’ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے۔۔۔ توں لبھدی پھریں بازار کُڑے‘‘ انہیں کیا خبر تھی کہ ہم فرعون کے زمانوں میں نہیں ہیں جس نے بنواسرائیل میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو ہلاک کرڈالا۔ انہیں خبر ہی نہ تھی کہ ہر زمانے میں کچھ مقدس فرعون ہوتے ہیں۔
یہ جو سینکڑوں تابوت تھے جو ان کے سائز کے نہ تھے۔ جن میں وہ مردہ حالت میں اپنی سکول کی وردیوں میں، کاندھا دینے والوں کے جھٹکے سے لڑھکتے پھرتے تھے اور اس دھند میں ظاہر ہو رہے تھے اور انہیں قبرستان تک کا راستہ نہ ملتا تھا۔ انہوں نے تو دھند کے رومان کو غارت کردیا تھا۔ میں پورا برس موسموں کی شدت سہتا تھا صرف اس آس میں کہ دسمبر کہ مہینے میں دھند اپنے پوتّر سفید لبادوں میں ملبوس ، لہر در لہر، اٹکھیلیاں کرتی چلی آئے گی اور ہر شے کو ، مکانوں، شاہراہوں، جھاڑیوں اور شجروں پر اپنا سفید جادو پھونک کر انہیں اوجھل کردے گی۔ میں انہی ہیڈلائٹس اور خدشے کی بار بار آنکھیں جھپکتی زرد روشنیاں جلا کر دھیرے دھیرے اپنی کار پر ماڈل ٹاؤن پارک پہنچوں گا اور وہاں اتری ہوئی دھند میں پوشیدہ ہوتے ، کبھی ظاہر کبھی اوجھل ہوتے درختوں اور ہرے بھرے میدانوں کے اندر میں بھی گم ہو جاؤں گا۔ اس رومان میں مبتلا ہو جاؤں گا کہ ابھی گھنی دھند میں سے کوئی بچھڑ چکا عشق خاص نمودار ہوگا اور میں پھر سے اس کے عشق میں مبتلا ہو جاؤں گا کیونکہ اس سویر دھند میں سے کچھ چہرے تو ابھرتے تھے پر وہ خون آلود تھے۔ ان کے ننھے منے سروں میں سوراخ تھے جن میں سے ابھی تک خون رس رہا تھا اور وہ ان تابوتوں میں سے جھانکتے تھے جو دھند میں سے ظاہر ہو رہے تھے۔ ان کی مائیں گھروں میں ان کی واپسی کی منتظر چوکھٹوں پر بیٹھی تھیں اور وہ گھر جانے کی بجائے اپنے بستے گلے میں ڈالے اپنی سکول یونیفارم سمیت جنت میں چلے گئے تھے اور وہاں شاید ننھا علی اصغر شہید انہیں خوش آمدید کہتا ہوگا۔ کربلا کے شہید اُن کے استقبال کرتے چلے آتے ہوں گے اور ان سے پوچھتے ہوں گے اور حیرت سے پوچھتے ہوں گے کہ ہمارا تو خیال تھا کہ ہم نے اپنی قربانیوں سے اسے آخری کربلا کردیا ہے تو یہ ایک اور کربلا کہاں ٹوٹ پڑی ہے۔ کیا یزید ابھی تک زندہ چلا آتا ہے لیکن ہماری کربلا میں تو چند معصوم شہید ہوئے تھے اور تم سینکڑوں کی تعداد میں چلے آتے ہو تو تمہیں ہلاک کرنے والا صرف ایک یزید تو نہیں ہوسکتا، تم اتنے ڈھیر سارے ہو کہ تمہارا تو سوگ بھی نہیں منایا جاسکتا، نہ اتنا رویا جاسکتا ہے اور نہ ہی اتنا ماتم کیا جاسکتا ہے۔ ایک ایک دو دو کرکے شہید ہوتے تو کوئی بات بھی تھی،ہم تمہارا غم کرتے، سینہ کوبی کرتے، سر پر راکھ ڈال کر آہ و زاریاں کرتے، پر تم تو اتنے ہو کہ اتنا تو غم بھی نہیں ہے، نہ ہی اتنے سینے ہیں اور نہ ہی اتنے سر ہیں، اور نہ ہی اتنی راکھ ہے۔ اور وہاں بی بی زینب بھی انہیں دیکھ کر اپنے دکھ بھولتی ہوں گی اور وہ بھی کہتی ہوں گی کہ آؤ میرے گلے لگ جاؤ، اپنی خون آلود یونیفارموں اور لہو سے بھری کتابوں کے ساتھ جن میں اسلامیات کے سبق ہیں، قرآن کی آیتیں ہیں اور تم میں سے کچھ کے پاؤں میں جوتے نہیں ہیں تو کیا انہیں کربلا میں چھوڑ آئے اور تم میں سے کچھ کی انگلیاں کٹی ہوئی ہیں۔ یزید نے ہمارے بچوں کو ہلاک کیا تھا پر ان کی انگلیاں تو نہیں کاٹی تھیں۔ اور باری باری میرے گلے لگنا کہ تم تو سینکڑوں کی تعداد میں ہو اور میرا گلا تو گھٹ جائے گا پر چلے آؤ۔۔۔ آؤ میں تمہیں علی اصغر کے برابر میں بستر بچھا کر دیتی ہوں کہ تم وہاں آرام کر سکو۔۔۔ لیکن ذرا ٹھہرو یہاں اتنے بستر کہاں ہوں گے۔تم تو بہت سارے آگئے ہو، یہاں جنت میں اتنے بستر تو نہیں ہوتے، بچوں کے تو نہیں ہوتے، آؤ میرے گلے لگ جاؤ اور بی بی زینب نے اپنے شہید بھائی کو بھی پکارا ہوگا کہ آؤ حسین ان سینکڑوں بچوں سے ملو۔۔۔ ان میں اپنا بچپن دیکھو، جب تم اپنے نانا حضورؐ کے کندھوں پر سوار ہو جاتے تھے، نماز کے دوران ان سے لاڈ کرتے تھے بلکہ وہ تمہیں ڈھیلے ڈھالے لبادے میں چلتے دیکھ کر منبر سے اتر آتے تھے کہ کہیں وہ لبادے تمہیں پاؤں میں آکر تمہیں اوندھے منہ گرا نہ دیں، جیسے تم ان کے لاڈلے تھے یہ بھی تو اپنے اپنے نانا جان کے لاڈلے ہوں گے، اگرچہ ہمارے نانا حضورؐ نے تمہاری شادت کا دکھ نہ دیکھا، اگرچہ انہیں خبر ہوگئی تھی کہ مٹی سرخ ہو گئی ہے لیکن ان کے نانا جان جو ہیں انہوں نے اپنے نواسوں کے دکھ اور موت کو دیکھا۔۔۔ اے میرے بھائی جان ان کی انگلیاں پکڑ کر انہیں جنت کے ان محلوں میں لے جاؤ جہاں تمہارا بسیرا ہے اور ان میں سے کچھ کی انگلیاں یزیدوں نے کاٹ ڈالی ہیں تو انہیں اپنی آغوش میں لے لو۔۔۔ کہ ان بچوں کے چھلنی ہو چکے بدنوں میں سے وہی خون رستا ہے جو تمہارے شاندار نانا حضورؐ کے چومے ہوئے بدن میں سے کربلا کے تیروں سے پھوٹ نکلا تھا۔۔۔ وہی خون ہے۔
بڑھتی جاتی دھند تھی اور اس دھند میں سے سینکڑوں تابوت ظاہر ہوتے تھے، تابوت بڑے تھے اور لاشے چھوٹے اور وہ لڑھکتے جاتے تھے۔
فیس بک کمینٹ