یہ دو روز پہلے کی بات ہے کہ جب حلب کی آزادی کا جشن منایا جا رہا تھا ۔ ایک جشنِ مرگ تھا اور ایک رات تھی کہ جس میں چیخ و پکار تھی ان شہریوں کی جو داعش کے چنگل سے نکل چکے تھے اور اب بشار الاسد کی فاتح فوج کے محاصرے میں تھے ۔ دور بہت دور شام کے شہر حلب میں ایک شام اُتری تھی رات بن کر اور ایک جشن تھا اور اس جشن سے بے خبر ہم سب سو رہے تھے ۔ بہت گہری نیند سو رہے تھے کہ وہ حلب تھا ملتان نہیں تھا اور وہ شام تھا پاکستان نہیں تھا ۔ اور مجھے اس سات سالہ بچے کا ٹویٹ رات کے اس پہر بی بی سی کی ویب سائیٹ پر دکھائی دیا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ یہ میرا آخری پیغام ہو سکتا ہے ۔ اور یہ میری آخری رات ہو سکتی ہے ۔ اس رات حلب شہر کے بچے کھچے گھروں میں شامی فوجی گھس گئے تھے اور بلا تخصیص سب کو قتل کر رہے تھے ۔ مذہب یا فرقے کی تخصیص تو تھی مگر بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کی تخصیص نہیں کی جا رہی تھی ۔ رات بھر بی بی سی کی ویب سائیٹ پر اور سوشل مڈیا پر درد ناک پیغامات آتے رہے ۔۔۔ چینلز والو ہمیں براہِ راست مرتا دکھائو ۔۔۔ دنیا والو اٹھو اور سڑکوں پر آ جائو ۔۔۔ اٹھو ہم مر رہے ہیں ۔۔۔ اٹھو ۔۔۔ جاگو ناں ۔۔۔ اور جب تم صبح جاگو گے تو ہم اس دنیا میں نہیں ہوں گے ۔۔۔ دیکھو یہ ہماری زندگی کی آخری رات ہے ۔۔۔ یہ ویڈیو پیغامات تھے جو کہیں ٹیلی کاسٹ نہ بھی ہوئے تو سوشل میڈیا پر ضرور آ رہے تھے اور بہت سے پیغامات کسی زور دار دھماکے یا فائرنگ کے بعد دم توڑ جاتے تھے ۔ یہ حلب میں قیامت کی رات تھی۔ بہت سے لوگوں کے جیون کی آخری رات تھی ،شاید اس سات سالہ بچے کی بھی آخری رات تھی ۔ لیکن ہم سب اس سے بے خبر تھے ۔ کوئی 100 سے زیادہ محصور شہری اس رات شام کی فاتح فوج کے ہاتھوں مارے گئے ۔ بشار الاسد کے ہاتھوں مارے گئے ۔۔ اور میں اپنے کمرے میں بیٹھا بے بسی کے عالم میں یہ سب دیکھتا تھا ۔ سات سالہ بچے کا ٹویٹ آواز بن کر میرے کان میں گونجتا تھا ۔ میں اس کی زبان نہیں سمجھتا مگر درد کی زبان تو مشترک ہوتی ہے اور سمجھ بھی آ جاتی ہے ۔۔ میں چینلز کو گھماتا اور سوچتا تھا کہ کہیں کوئی ایک ٹکر تو نظر آئے گا جس میں اس المیئے کا ذکر ہو گا مگر ہماری دنیا کے لئے تو یہ خبر ہی نہیں تھی ۔ ہمیں تو داعش کے مظالم کا ذکر کرنا ہوتا ہے کہ داعش سے ہمیں خطرہ جو ہے ۔۔ اور یہ مغربی میڈیا ۔۔ یہ تو جھوٹ بولتا ہے ۔ بدنام کرتا ہے مسلمانوں کو ۔۔ اسلام کو بدنام کرتے ہیں یہ لوگ ۔ سو میں اس خبر کو جھوٹ ہی سمجھتا تھا ۔ ٹویٹ بھی تو جعلی ہو سکتے ہیں ۔ لیکن ایک خیال بار بار ستا رہا تھا کہ مذہب کے نام پر یہ قتل و غارت کیوں ہے ؟ کیا مذہب صرف خونریزی کا نام ہے ۔ ۔ میں نے جھٹک تو دیا ان خیالات کو مگر میں رات بھر سو نہیں سکا تھا ۔ کاش کہ یہ حلب آزاد نہ ہوتا ۔۔ کاش ۔۔ کاش ۔۔ کاش یہ آزاد نہ ہوتا ۔ مگر پھر اس سوچ کو بھی جھٹک دیا ۔ ایسے فرقہ وارانہ خیالات تو میرے ذہن میں شیطان ہی ڈال رہا تھا ۔ بشار الاسد کی فتح پر مجھے ملال نہیں کرنا چاہیئے ۔۔ کہیںایسا تو نہیں کہ میں بھی داعش سے تعلق رکھتا ہوں ۔۔ پتہ نہیں کیا کیا سوچتا رہا اور کب تک جاگتا رہا ۔ جاگنا تو معمول ہے چلو ایک رات حلب کے محصور شہیدوں کی یاد میں جاگتے ہیں ۔ وہ سات سالہ بچہ کون تھا اور بے یار و مدد گار لڑکی کون تھی جو کہتی تھی دنیا والو صبح ہم نہیں ہوں گے ۔ اور مجھے یاد آتا تھا کہ انہی دنوں میں ایسی ہی چیخیں مشرقی پاکستان میں سنائی دی تھیں۔ فاتح فوج تو وہاں بعد میں آئی تھی مگر چیخیں پہلے سنائی دی تھیں ۔ لیکن وہ چیخیں ہمیں بھلا کب سنائی دی تھیں ؟ ۔ تب بھی سنائی نہیں دی تھیں ، اب بھی سنائی نہیں دیں ۔ پھر سقوط ڈھاکا ہوا تھا ۔ اور کئی سال بعد اسی مہینے عین اسی روز سکوتِ پاکستان ہوا ۔۔ جب ہمارے بچے مار دیئے گئے ۔ہم نے ’’سقوط‘‘ سے بھی سبق حاصل نہیںکیا اور ’’سکوت‘‘ بھی ہمیں کوئی سبق نہ دے سکا ۔ درد کی زبان مشترک سہی سمجھ بھی آتی ہو گی لیکن اس کے لئے فرقہ یا مسلک بھی ایک ہونا چاہیئے ۔ تین روز بیت گئے کیا پاکستان کے میڈیا میں آپ کو حلب کے سات سالہ بچے کا تذکرہ سنائی یا دکھائی دیا ۔ چھوڑیں جناب ۔ یہ تو دور کی بات ہے ہم نے تو اپنے بچوں کی چیخوں سے اب تک کوئی سبق نہیں سیکھا حلب میںرہنے یا مرنے والے بچے کی بھلا کیا حیثیت ہے ۔
فیس بک کمینٹ