ہمارا تعلق ایسی قوم سے ہے کہ ہم اپنے زندہ ہیرو کو بھی ہیرو تسلیم نہیں کرتے اور اگر ہیرو مر جائے تو اُسے اپنے نظریات کے تحت زیرو کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ دور کیوں جائیں حال ہی میں حکومتِ پاکستان نے نوبل انعام یافتہ سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کو اُن کے نام سے موسوم کیا تو ہم سب کو اس موقع پر بھی اُن کا مذہب یاد آ گیا۔ آج کل یار لوگوں کا پسندیدہ موضوع حکومت کا یہ فیصلہ ہے جس پر ہم علماءکرام سے استفادہ کر رہے ہیں۔ 2016ء میں جب عبدالستار ایدھی کا انتقال ہوا تو اُن کے جنازے پر مذہبی رہنمائوں کا جو ردِ عمل آیا وہ بھی ناقابلِ یقین تھا۔ مثال کے طور پر ایدھی پر سب سے بڑا الزام یہ لگایا گیا کہ وہ لوگوں کے لاوارث بچوں کی پرورش کر کے ان کا وارث بنتا تھا۔ قارئین کرام مجھے کوئی دین کا زیادہ علم نہیں مَیں عام سا مسلمان ہوں لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ یہاں پر انہوں نے دینِ اسلام کی بات نہیں کی۔ اور اگر ہم اسلام میں انسان کی اہمیت کو دیکھتے ہیں تو ایسے میں ہمیں وہ حکمِ خداوندی بھی یاد آ جاتا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ خانہ کعبہ میں ایک چیونٹی کو مارنے کا بھی حکم نہیں ہے۔ اور آج کل ہماری جیبوں میں انسانوں کو ختم کرنے کے اتنے فتوے موجود ہیں کہ الحفیظ و الامان۔ عبدالستار ایدھی کے بعد جب نامور قوال امجد صابری کا قتل ہوا تو تب بھی اُن کی میت پر فرقہ واریت کی باتیں کی گئیں۔ ابھی وہ گرد بیٹھی ہی نہیں تھی کہ جنید جمشید ہم سے جدا ہو گئے۔ اُن کی ناگہانی موت پر جس طرح کے تبصرے چل رہے ہیں کاش وہ تبصرے پڑھنے سے قبل ہم اپنی عبادات کے احکامات کو بھی دیکھ لیتے۔ کہ ہمیں یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ ہم کسی کو جہنمی ہونے کا سرٹیفکیٹ عطا کریں۔
عبدالستار ایدھی ہو یا امجد صابری اور جنید جمشید یہ سب تو قوم کے اپنے اپنے شعبوں کے ہیرو ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب جنید جمشید کا گایا ہوا ”دل دل پاکستان“ نشر ہوا تو وہ پاکستان کی تاریخ کا مقبول ترین ملی نغمہ ثابت ہوا۔ اُنہی دنوں جنید جمشید کا میوزک گروپ ’وائٹل سائنز‘ ملتان کے سروسز کلب میں پرفارم کرنے آیا تو اُس دن کلب میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ وہ جنید جمشید جو موسیقی کی وجہ سے لاکھوں دلوں کی دھڑکن تھا اچانک ایسا تبدیل ہوا کہ اُس نے اﷲ کی طرف لو لگا لی اور کلین شیو جنید جمشید باریش ہوا اور اس کے بعد وہ پھر اﷲ اور اس کے رسولﷺکی باتیں کرنے لگا۔ مجھے تو اس کا یہ روپ بھی بہت اچھا لگا۔ عام طور پر جس نے شوبز میں اتنا عروج دیکھا ہو وہ کبھی بھی اُس سے جدا ہونے کا سوچتا بھی نہیں ہے۔ لیکن جنید جمشید نے اپنے لیے ایک مشکل اور مختلف راستہ اختیار کیا۔ وہ اب تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ شہر شہر اور مختلف ممالک میں جانے لگا۔ ایک نامور شخص گھر کو خیرباد کہہ کے اﷲ کے پیغام کو پھیلانے کے لیے تبلیغی جماعت کے طے شدہ اصولوں پر کام کرنے لگا۔ پھر ٹیلیویژن والوں نے سوچا کہ جنید جمشید کے اس روپ کو بھی سامنے لایا جائے۔ میڈیا نے اسے عالمِ دین کے طور پر متعارف کروایا۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس نے بہت کم عرصے میں اپنی محدود معلومات کے تحت اسلام پر گفتگو شروع کی تو لوگوں نے اس پر بھی اس کی پذیرائی کی۔ شوبز کے تمام اہم لوگوں سے اس کے ذاتی تعلقات تھے۔ وہ مذہب پر بات کرتے ہوئے کوئی ملمع کاری نہیں کرتا تھا۔ اس کا یہی روپ لوگوں کو پسند آنے لگا۔ ایسے میں ایک دن ٹیلیویژن پر حضرت عائشہ کے بارے میں کوئی بات کی تو مذہبی انتہا پسندوں نے آسمان سر پہ اٹھا لیا۔ کچھ عرصے کے لیے اس کے لیے حالات اتنے تنگ ہوئے کہ اسے پاکستان چھوڑ کر جانا پڑا۔ پھر سوشل میڈیا کے ذریعے جنید جمشید نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس نے نہ صرف معذرت کی بلکہ اس نے بتایا کہ اس کے بیان کو غلط طور پر لیا گیا ہے۔ اس کی اس معذرت کے باوجود ایک دن جنید جمشید کو ایئرپورٹ پر مذہبی انتہا پسندوں نے گھیر کر حملہ کیا جس سے وہ بمشکل جان بچا کر نکلے۔ مَیں یہ ساری صورتحال دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ کاش جنید جمشید گلوکاری کرتا رہتا تو اس کو مذہبی انتہا پسندوں سے لے کر موسیقی کے دلدادہ اپنے ہاتھوں میں اٹھاتے رہتے۔ خدا کا شکر یہ ہوا کہ اُس کے اِس بیان والی گرد بیٹھ گئی اور جنید جمشید نے معمول کے مطابق اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ اس دوران ایک مرتبہ جنید جمشید تبلیغ کے سلسلے میں ملتان تشریف لائے تو اُن کے ساتھ ماضی کے نامور گلوکار (تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے فیم) امجد حسین بھی تھے۔ مجھ سے برادرم حبیب الرحمان بٹالوی نے اُن کی ایک تقریب کی نظامت کے لیے رابطہ کیا۔ وہ تقریب ملتان کے ایک پرائیویٹ کالج میں منعقد ہوئی۔ مَیں نے جنید جمشید کا تعارف کروایا۔ اُن کے بارے میں تفصیلی بات چیت کی جو انہوں نے بہت پسند کی۔ انہوں نے میرے اندازِ نظامت کو بھی سراہا اور آخر میں انہوں نے اپنی مشہور حمد و نعت کے علاوہ دل دل پاکستان بھی سنایا۔ اسی طرح امجد حسین نے بھی طلبہ و طالبات کے سامنے اپنا مشہور ملی نغمہ تالیوں کی گونج میں پرفارم کیا۔ اُس تقریب میں مَیں جنید جمشید اور امجد حسین کو ملی نغمے گاتا دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ ہم نے بہت سے علماءکرام کو موسیقی کی مخالفت کرتے دیکھا لیکن ان دونوں شخصیات نے پاکستان کی محبت میں ملی نغموں کو گانا ترک نہ کیا۔ اور پھر ایک دن جنید جمشید اور اُن کے ساتھ 46 قیمتی جانوں کے ضائع ہونے کی خبر آ گئی۔
47 خاندانوں میں صفِ ماتم آج بھی بچھی ہوئی ہے۔ جہاز کے حادثے میں جل جانے کی وجہ سے لاشوں کی شناخت مشکل ہو رہی ہے۔ DNA ٹیسٹ جاری ہے۔ جیسے جیسے مرنے والوں کا علم ہوتا جا رہا ہے غموں سے چور لواحقین کو اُن کے پیاروں کی نعشیں دی جا رہی ہیں۔ قیامت کی گھڑی اُن کے گھروں سے رخصت نہیں ہوئی۔ لواحقین ہسپتال کے باہر کھڑے DNA ٹیسٹ کی رپورٹوں کا انتظار کر رہے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ سوشل میڈیا پہ بیٹھے ہوئے ذہنی بیمار یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ کون جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم اپنی جیب میں جنت و جہنم کی مہریں لیے پھر رہے ہیں جن کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اسلام میں کسی کا دل دکھانے کی کتنی ممانعت کی گئی ہے اور ہم یہ کام صبح سے لے کر رات تک کر رہے ہیں۔ ہم کتنے عجیب لوگ ہیں کہ ہمارے تو ہیرو بھی اب ہیرو نہیں رہے۔ مَیں نے سوچا تھا کہ اپنے بچوں کو کہوں گا کہ اپنے خیرات، صدقات اور قربانی کی کھالیں عبدالستار ایدھی، شوکت خانم ہسپتال، SIUT یا اس طرح کے کسی بھی ادارے کو دیا کریں۔ اپنی صبح کا آغاز نماز و تلاوت کے بعد کسی نعت یا قوالی کو سن کر کیا کریں۔ یہ سب باتیں اب میرے دل میں ہیں۔ مَیں سوچ رہا ہوں اگر میرے بچوں نے عبدالستار ایدھی، امجد صابری اور جنید جمشید کے بارے میں مذہبی انتہا پسندوں کے بیانات پڑھ لیے تو وہ کہیں میری حکم عدولی کا شکار نہ ہو جائیں۔ کاش ہم ایسے نہ ہوتے جیسے ہم 2016ءمیں ان تینوں شخصیات کی موت کے بعد ہو گئے ہیں۔ میرے دور کے ہیرو میرے ہی زمانے میں زیرو ہو گئے اس سے بڑھ کر اس سال کا میرے لیے خسارہ اور کیا ہو سکتا ہے۔مَیں جو 2015ءکے اختتام تک اپنے ذہن میں ان کو ہیرو بنا کر 2016ء میں داخل ہوا تھا کیا معلوم تھا کہ دسمبر 2016ءتک مجھ سے یہ قوم میرے ہیرو ہی چھین لے گی۔
فیس بک کمینٹ