وہ جو معروف مصرعہ ہے ناں کہ ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ تو یقین کیجئے اگر آپ اپنے مقامی، ہزاروں برسوں سے آپ کے دکھ سکھ میں شریک، شجروں کے ساتھ پیوستگی اختیار کریں گے تب ہی بہار کی امید رکھ سکیں گے۔ آپ اگر درآمد شدہ اجنبی درختوں سے پیوستہ ہوں گے تو وہ ہرگز آپ کی حیات میں بہار نہیں لائیں گے۔ مثلاً اگر آپ ایک یوکلٹپس کے درخت کو جپھا مار لیں گے تو وہ آپ کو بہار عطا کرنے کی بجائے آپ کا خون چوس جائے گا۔ آپ آگاہ ہوں گے کہ یہ درخت جسے ہم سفیدہ کہتے ہیں، جیسے مردم خور ہوتے ہیں ایسے یہ آب خور ہیں۔ یہ زمین میں موجود پانی کا آخری قطرہ چوس لیتا ہے یہاں تک کہ اس کی جڑیں زیر زمین پانی اور گٹر کے پائپوں کے ساتھ لپٹ کر انہیں شکستہ کر دیتی ہیں۔ جبکہ کیکر ایک ایسا صابر شاکر درخت ہے کہ پانی کے بغیر بھی زندہ رہ جاتا ہے اور پھر جب بہار آتی ہے تو اس کے زرد پھولوں میں سے مہک اٹھتی ہے۔ وہ بھنوروں کو بھی پاگل کردیتی ہے۔ کیکر کی مسواک میں جو سبز تازگی ہے وہ آپ کی روح کو بھی تروتازہ کردیتی ہے۔ آپ کی مقامی شاعری اور ادب کے سب سے رومانوی ہیرو ہمارے اپنے شجر ہیں۔ اگر آپ شہر والے ہیں اور آپ پنجاب کے شاندار درختوں سے کم واقفیت رکھتے ہیں تو کبھی بہار کے آغاز میں ماڈل ٹاؤن پارک میں جو ایک صدیوں پرانا بڑے گھیر کا گھنا شرینہ کا درخت ایک پنجابی گبھرو کی مانند کھڑا ہے اسے دیکھنے کے لیے آئیے گا۔ شرینہ کے نازک زرد رنگ کے پھولوں کی مہک اتنی نشہ آور ہوتی ہے کہ پرانے زمانے کی شاعری میں کہا جاتا تھا کہ جوان لڑکیوں کو شرینہ کی قربت میں جانے نہ دیجیو ورنہ اس کے پھولوں کی خوشبو کرتوں کے بٹن کھول دے گی کہ یہ مہک دیوانہ کرنے والی ہوتی ہے۔ میاں محمد بخش نے بھی اپنی شاعری میں پیپل، شیشم، برگد، کیکر اور شرینہ کے استعارے استعمال کئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں وچھڑگیاں دی کیہہ اے نشانی۔ جویں ڈیگر رنگ شریناں‘‘۔ یعنی وہ جو اپنے محبوب سے بچھڑ جاتے ہیں، انہیں ایسے پہچان لیا جاتا ہے کہ ان کے رنگ غروب آفتاب کے جیسے شرینہ کے پتے زرد ہوتے ہیں، ایسے زرد پتے ہوتے ہیں، ادھر نہ صرف لوک گیتوں میں بلکہ فلمی گانوں میں بھی مقامی شجر سریلے ہوتے ہیں۔ اگر ’’باغوں میں پڑے جھولے اور تم بھول گئے ہم کو، ہم تم کو نہیں بھولے‘‘ تو حضور یہ جھولے کسی شاہ بلوط یا چیڑ کے درخت پر نہیں آموں کے درختوں پر ہی پڑتے تھے۔ امبوا کی ڈال پر ہی کوئل بولتی تھی اور وہ جو آواز کے جہان کی ملکہ نور جہاں تھی وہ اگر اپنے محبوب کو متوجہ کرنے کے لیے چوڑیاں چھنکاتی تھی تو کسی سرو کے درخت تلے تو نہیں چھنکاتی تھی۔ پیپل کے درخت تلے چھنکاتی تھی۔ ع شکر دوپہرے پپلی دے تھلے۔ میں چھنکائیاں ونگاں حضور اس بڑھاپے کے جہاں سو دکھ ہیں وہاں سو فائدے بھی ہیں۔ یہ آپ کے جوانی کے عیبوں پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ مثلاً آپ پیدائشی طور بھلکڑ واقع ہوئے ہیں لیکن بڑھاپے کی آمد اس عیب کو بھی ڈھانپ لیتی ہے کہ حضور کیا کریں اس بڑھاپے نے تو مت مار دی ہے جبکہ مت تو پہلے سے ہی ماری گئی ہوتی ہے کہ اب تو کچھ یاد نہیں رہتا۔ چنانچہ میں بھی اسی بڑھاپے کی آڑ لے کر یہ اقرار کروں گا کہ اس کالم کی غرض کچھ اور تھی اور میں بھٹک کر عرض کچھ اور ہی کرتا رہا۔ غرض یہ تھی کہ ان دنوں جو ہر جانب شجر کاری کی ہاہاکار مچی ہوئی ہے یکدم پوری قوم پر درخت لگانے کا خبط سوار ہوگیا ہے جسے دیکھو جنگلات کی اہمیت اجاگر کر رہا ہے۔ خاص طور پر یہ بیوروکریٹ حضرات بغل میں گملے دابے بھاگے پھرتے ہیں کہ شجر لگانا ہے، شجر لگانا ہے اور میڈیا کو بلانا ہے۔ میڈیا کے بغیر شجر کیسے پرورش پائیں گے یہ صرف اہل اقتدار کی خوشنودی کی خاطر کیا جارہا ہے ورنہ ہمارے بیشتر بیوروکریٹس اور وزیروں وغیرہ کو درختوں سے صرف اس قدر رغبت ہے کہ اگر انہیں کاٹ دیا جائے تو ایک ہاؤسنگ سکیم کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے او ریہ جو شجرکاری کا شور مچا ہوا ہے صرف اس لیے کہ خیبرپختونخوا میں مبینہ طور پر کروڑوں درخت لگائے گئے اور عمران خان کی خواہش کے مطابق لگائے گئے۔ اب بہت سے حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ ان کی تعداد میں مبالغہ کیا گیا ہے لیکن ذاتی طور پر میں یہ کہتا ہوں کہ اگر کروڑوں نہ سہی لاکھوں لگائے گئے تو درخت لگائے تو گئے۔ یہ اگر کنفیوشس نے نہیں تو شاید میں نے کہا تھا کہ اگر آپ اگلے دس برس کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو بیج بو دیجئے۔ بیس برس کا خیال ہو تو درخت لگائیے اور اگر اگلے سو برس کے لیے قوم کو سوارنا ہو تو اسے تعلیم دیجئے۔ چونکہ وہ لوگ جو اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں ،ہمیشہ اہل اقتدار کے لیے نہ صرف اپنے طور طریقے بلکہ مذہب بھی بدل لیتے ہیں۔ ضیاء الحق کے عہد میں کچھ لوگ وسکی کا گلاس اٹھا کر اپنے ہم مشرب کے گلاس سے ٹکراتے ہوئے ’’چیئرز‘‘ نہیں کہتے تھے ’’بسم اللہ، سبحان اللہ‘‘ کہتے تھے۔ میاں صاحب کے زمانوں میں ایسے ایسے معرکے ہوئے کہ نہاری اور سری پائے تو کیا لوگ رس گلے اور دہی بھلے کھلا کر صدارت کے لیے ممنون ہو گئے۔ میں گواہ ہوں، اگر میں بولتا نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں جانتا نہیں۔ جتنے برس میں نے میڈیا پر گزارے ہیں اتنے برسوں کے وہ بیشتر اینکر حضرات نہیں جو سینئر صحافی کہلاتے ہیں تو جنرل پرویز مشرف نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہی ایک ’’ادیبوں اور دانشوروں کی کانفرنس‘‘ طلب کرلی اور وہاں ایسے بھانت بھانت کے جانور تھے جن کو نہ میں جانتا تھا اور نہ ہی وہ مجھے جانتے تھے۔ ان میں بیشتر اسلام آباد کی وہ چمگادڑیں تھیں جو ہمیشہ ہر حکمران کی آمد پر چیں چیں کرنے لگتی تھیں۔ بہرحال رمضان کا مہینہ تھا، روزہ افطار کیا گیا اور پھر جنرل صاحب نماز پڑھنے کے لیے صدارتی قصر کے لان کی جانب چل دیئے اور ان کے پیچھے پیچھے تقریباً سبھی چل دیئے اور ہم ایسے جو کھڑے رہے وہ ہمیں پکارتے تھے کہ آئو فلاح کی جانب اور میں نے دیکھا کہ ٹیلی ویژن کے ایک سابق ایم ڈی میرے بہت اچھے دوست افتخار عارف کی مانند ہمیشہ کسی نہ کسی عہدے پر فائز رہنے والے، جنرل مشرف کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے چلے جا رہے ہیں تو میں نے حیران ہو کر ایک محرم راز سے پوچھا ’’یہ ہمارے‘‘ باوا قاصر‘‘ کب سے نمازی ہو گئے تو اس نے کہا ’’تارڑ بھائی، اگر کل کلاں خدانخواستہ اس ملک کا حکمران ایسا آ جائے جو کالی کلکتہ والی کا پجاری ہو تو اپنے باوا جی سب سے پہلے سنکھ بجاتے، گھنٹیاں کھڑکاتے اس کے پیچھے چل کھڑے ہوں گے اور کالی دیوی کے چرنوں میں سر رکھ دیں گے۔‘‘ ابھی صورت حال اتنی تشویش ناک تو نہیں ہوئی ہے لیکن آثار نظر آ رہے ہیں۔ لوگ دھڑا دھڑ سفید لباس سلوا رہے ہیں، اپنے ملازموں کی کوٹیاں پہن رہے ہیں اور سادگی یوں اختیار کر رہے ہیں کہ اپنے کتوں کو گوشت کھلانے کی بجائے سوکھے بسکٹ کھلا رہے ہیں۔ سکاچ وسکی کی بجائے دیسی سادہ کیکر کی شراب پی رہے ہیں۔ نہایت محب الوطن لوگ ہیں۔ اخبار کھولتے ہیں تو ان میں ہر جانب وزیر اور بیوروکریٹ درخت لگا رہے ہوتے ہیں اور یہ ایک شجر آور عمل ہے لیکن ان تصویروں کا عنوان کیا ہوتا ہے۔ فلاں صاحب فلاں مقام پر ایک پودا لگا رہے ہیں یا ایک درخت کی جڑوں میں بیٹھ رہے ہیں، لیکن کبھی بھی یہ نہیں لکھا ہوتا کہ آخر وہ کونسا درخت لگا رہے ہیں، اس کا نام کیا ہے۔ میرے نزدیک یہ ایک بہت بڑا جرم ہے، جیسے آپ کسی بیوروکریٹ، سیاست دان یا چمچہ دان کی تصویر شائع کریں اور عنوان درج ہو کر وہ صاحب، ایک انسان کو مل رہے ہیں۔ ایک عورت سے دست پنجہ لے رہے ہیں تو کیا اس انسان کا، اس عورت کا کوئی نام نہیں۔ ان سب کو پابند کیا جائے کہ اگر آپ عمران خان کی ’’گڈ بک‘‘ میں آنے کے لیے بادل نخواستہ ایک درخت لگاتے ہیں تو اس کا نام مالی سے پوچھ کر صحافیوں کو بتا دیجئے۔ لینڈ سکیپ مصوری میں خالد اقبال ایک ایسے تخلیق دیوتا ہیں کہ جو کوئی بھی زندگی کے مناظر کو نقش کرنے کی آرزو کرتا ہے وہ خالد صاحب کے چرنوں پر سجدہ کرتا ہے اور پھر برش اٹھاتا ہے، خالد اقبال کے پینٹ کئے ہوئے زمینی مناظر میں بہرصورت کوئی نہ کوئی کیکر کا درخت بہرطور موجود ہوتا ہے۔ میں نے جب پوچھا تو وہ کہنے لگے ’’تارڑ صاحب۔ میں نے دنیا بھر کے درخت دیکھے ہیں لیکن کیکر ایسا خوشنما، عجب شکلوں والا اور عجب ہریاول والا درخت نہیں دیکھا۔ کبھی غور کیجئے گا کہ کوئی ایک کیکر کا درخت کسی دوسرے سے مشابہ نہیں ہوتا۔ اگر پنجاب میں فرض کریں دس لاکھ کیکر ہیں تو وہ سب کے سب ایک الگ اور منفرد شکلیں رکھتے ہیں۔ کوئی ٹھگنا ہے اور کوئی ایک پہاڑی کی مانند پھیلا ہوا اور کوئی بہت گھنا اور خاموش۔‘‘ اچیاں لمبیاں ٹاہلیاں تے وچ گجری دی پینگ وے ماہیا اور اگر آپ نے اس ماہیے کو جگانا ہے تو کسی ڈہلیا کے پھول سے نہیں۔ ایک پھل موتیے دا مار کے جگا سوہنی
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ