گزشتہ کالم میں میں نے قومی بچت کے لیے نہائت سوچ بچار کے بعد‘ جذبہ حب الوطنی سے مغلوب ہو کر موجودہ حکومت کی سادگی اور کفائت شعاری کی مہم سے مرعوب ہو کر نہائت گراں قدر مشورہ جات کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا اور ایسے اداروں کی جانب توجہ مبذول کروائی تھی جنہیں بینڈ باجا بجا کر رخصت کر دینے سے لاکھوں کروڑوں کانہیں اربوں کا زرمبادلہ ہمارے قومی خزانے کو چار چاند لگا دے گا۔ پہلا چاند جو میں نے چڑھایا تھا وہ رویت ہلال کمیٹی کا تھا اگرچہ اس ملک میں سوائے ان علماء کرام کے اور کسی فرد کو اجازت نہیں کہ وہ کوئی بھی چاند چڑھائے۔ خاص طور پر عید کا چاند۔ ازاں بعد میں نے ان بانکوں کا تذکرہ کیا تھا جو لاہور کی سڑکوں پر آئرن مین ایسی ہیلمٹیں پہنے۔ عجیب و غریب خلائی لباسوں میں دنیا کے مہنگے ترین موٹر سائیکلوں پر سوار‘ دن کے وقت بھی رنگین لائٹیں جلا کر بے وجہ گشت کرتے رہتے ہیں اور خدا جانے انہیں ’’ڈولفن فورس‘‘ کیوں کہا جاتا ہے۔ ان کی وردیوں پر بھی ڈولفن انگڑائیاں لے رہی ہوتی ہے۔ مجھے گمان نہیں بلکہ یقین ہے کہ موٹر سائیکلوں پر دندناتے اکثر ٹریفک لائٹس کے سرخ ہونے پر چوک عبور کرتے نوجوانوں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی ڈولفن نہ دیکھی ہو گی۔ انہیں بتایا گیا ہو گا کہ یہ ایک نوعیت کی مچھلی ہوتی ہے اور انہوں نے یہی سمجھا ہو گا کہ یہ مزنگ چوک میں تلی جانے والی‘ اکثر زائد المیعاد ویت نام سے درآمد کی جانے والی لاہوری مچھلی ہو گی۔ میں نے زندگی میں بہت ساری ڈولفن دیکھی ہیں۔ بیروت کی بندرگاہ سے جب ہمارا ترک بحری جہاز وہاں کی خانہ جنگی سے بچا کر ہمیں نکلا تو جہاز کے پیچھے درجنوں ڈولفن ڈبکیاں لگاتیں سیٹیاں بجاتی کہ یہ نہائت شریر اور فلرٹ قسم کی مچھلیاں ہوتی ہیں۔ ہمیں گہرے سمندروں تک چھوڑنے آئیں اور پھر دریائے سندھ میں کشتی رانی کے دوران ایک سویر ہم نے پانیوں میں سے نمودار ہوتی‘ سورج کی پہلی کرنوں کو اپنے گیلے بدنوں پر منور کرتے‘ ایک اندھی ڈولفن کو دیکھا ارو وہ کیا ہی شاندار منظر تھا۔ سندھ کی اس نابینا ڈولفن کو دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔اچھا پچھلے دنوں اس دندناتی ڈولفن فورس کے اہلکاروں کی جانب ایک ذہنی طور پر پسماندہ نوجوان ہاتھ میں ایک ایسی چھری لئے جس سے ہیرے کا جگر تو شاید کٹ سکتا تھا ایک خربوزے کا نہیں‘ ایسی چھری لئے انہیں ڈرانے کے لیے لپکا تو خود کار اسلحہ سے لیس ان حضرات نے سوچا کہ اگر حکومت نے ہمارے پیراہنوں ‘ ہیلمٹوں اور موٹر سائیکلوں پر تقریباً نصف کروڑ خرچ کیا ہے اور پچھلی نشست پر براجمان آئرن مین کے پاس نہایت مہنگا اسلحہ ہے اور بہت بھاری لگ رہا ہے تو کیوں نہ اسے چلا دیا جائے۔ آزما لیا جائے کہ اسے چلانے سے کوئی شخص ہلاک بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ کہیں یہ اسلحہ بھی ہماری طرح نمائش تو نہیں تو لوگوں اور محلے والوں کی منت سماجت کرنے کے باوجود کہ یہ نوجوان پاگل ہے یونہی ہاتھ میں چھری تھامے لوگوں کو ڈراتا رہتا ہے‘ ان ڈولفنوں نے اس نوجوان کو گولیوں سے چھید کر کے ہلاک کر دیا۔کہا گیا کہ ڈولفن فورس کا ایک نوجوان بھی شدید زخمی ہوا تھا۔ یہ ایک بہانہ تھا ورنہ ٹیلی ویژن پر جو چھری دکھائی گئی اس کے بارے میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ وہ ایک خربوزہ بھی نہیں کاٹ سکتی تھی۔ صد شکر کہ ڈولفن فورس نے پہلی بار ٹارگٹ پریکٹس کر لی۔ یہ خون خاک نشیناں تھا۔ رزق خاک ہوا۔ البتہ یہ ثابت ہو گیا کہ یہ فورس اگر ڈولفن ہے تو سندھ کی اندھی ڈولفن ہے۔ ابھی چند روز پیشتر ایک صبح میں اپنے ڈیفنس والے گھر سے سیر کے لئے ماڈل ٹاؤن پارک جا رہا تھا اور کیولری کے گھوڑا چوک پر ٹریفک لائٹ کے سرخ ہونے کی وجہ سے رکا ہوا تھا۔ اس لئے نہیں کہ میں کوئی قانون کی پاسداری کرنے والا باشعور شہری تھا بلکہ پچھلے دنوں جو خفیہ کیمروں کی گواہی سے ای چلان کئے جاتے ہیں ان کے خوف سے رکا ہوا تھا۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ پہلے صبح سویرے سڑکیں خالی ہوتی تھیں اور لوگ سرخ بتی کے باوجود دھڑا دھڑ چوک عبور کر جاتے تھے۔ اب مجھ سمیت بیشتر ڈرائیور بھیگی بلی بنے اشاروں پر رکے رہتے ہیں یہ ایک مثبت اقدام ہے۔ تو جب سب رکے ہوئے تھے ڈولفن فورس کے دو موٹر سائیکل سوار روشنیاں جھلکاتے نمودار ہوئے اور سرخ بتی کے باوجود نہائت اطمینان سے چوک کے پار چلے گئے اور وہ کسی مجرم کا پیچھا بھی نہیں کر رہے تھے آپس میں چہلیں کر رہے تھے۔ جی تو یہی چاہا کہ ان کے راستے میں حائل ہو کر پوچھوں تو سہی کہ حضور انور ماشاء اللہ آپ نے کیا ہی قانون کی پاسداری کی ہے لیکن یہ ارادہ فی الفور ترک کر دیا کہ کیا پتہ وہ مجھے بھی ایک پاگل شخص قرار دے کر اپنی جان کی حفاظت کی خاطر ہلاک کر ڈالیں۔ اندھی ڈولفن ہیں ان کا کیا اعتبار۔ میں نے کم از کم دوبار ماڈل ٹاؤن پارک کے باہر کچھ لڑکیوں کے ساتھ جڑ کر سیلفیاں اترواتے دیکھا۔ آخر ایک باقاعدہ پولیس فورس ہونے کے باوجود ایک اور بانکی موٹر سائیکل والی فورس پر کروڑوں روپے ضائع کرنے کی کیا ایمرجنسی تھی۔ دراصل یہ جو حکمران ہوا کرتے ہیں ان کے دماغوں میں عجیب عجیب غیر قانونی بچے پیدا ہوتے رہتے ہیں جنہیں ان کے ’’برین چائلڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب کے ذہن میں آ گیا کہ تمام فیڈرل منسٹر ایک مخصوص وردی میں ہونے چاہئیں۔ تو کیا معراج خالد اور ڈاکٹر مبشر حسن ایسے نابغہ روزگار اور ہماری نسلوں کے آخری بائیں بازو کے آخری ایماندار لوگ بھی یہ اچکن نما وردی پہننے پر مجبور ہو گئے۔ یعنی بینڈ ماسٹر لگنے لگے۔ اسی طور خادم پنجاب کہیں ترکی وغیرہ گئے تو وہاں اس نوعیت کی فورس کو دیکھا تو واپسی پر حکم دیا کہ لاہور تب تک پیرس نہیں بن جاتا جب تک اس میں ایک عدد ڈولفن فورس کے موٹر سائیکل نہ دندناتے پھریں۔ شنید ہے کہ اس فورس میں بھرتی کئے جانے والے بیشتر نوجوان شدید سفارشی تھے۔ اکثر نون لیگ کے جلسوں میں’’میاں دے نعرے وجن گے‘‘ کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ ویسے صد شکر کہ خادم پنجاب بکھنگم پیلس کے باہر کھڑے آنکھوں تک آتی سمور کی سیاہ ٹوپیوں والے رائل گارڈز سے متاثر نہ ہوئے اور ان کی ایک پلٹن تخلیق کر کے انہیں وزیر اعلیٰ ہائوس جاتی عمرہ یا مری کے شاہانہ گھروں کے باہر متعین نہ کر دیا کہ وہ بھی تو رائلٹی لیتے ہیں کہ مریم بی بی نے کہا تھا کہ ہم حکمران خاندان سے ہیں۔ تو ہمیں بھی رائل گارڈز درکار ہیں۔ اگرچہ چھوٹے میاں صاحب کے ’’برین چائلڈ‘‘ کچھ ایسے ہی تھے لیکن میں ہر شخص کا شکر گزار ہوتا ہوں جس نے پنجاب کے لیے کچھ کیا۔ کوئی نہ کوئی ایسی تعمیر کی‘ ادارہ قائم کیا جو مثالی تھا۔ مثلا جنرل جیلانی جن کے کچھ گناہ بھی ہیں‘ ان میں سے ایک وہ کلنک کا ٹیکہ تھا جو ضیاء الحق کے قریبی ساتھی ہونے کی پاداش میں ان کے ماتھے پر لگا اور دوسرا میاں نواز شریف کو ملکی سیاست میں بھرتی کرنے کا تھا اور اس کے باوجود وہ نہ صرف لاہور بلکہ پنجاب کے محسنوں میں سے ہیں۔ آج جو ریس کورس پارک ہے‘ ماڈل ٹاؤن پارک ہے یہ اس ضیائی جنرل کے احسان ہیں اور بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جنرل جیلانی وارث شاہ کے جنڈیالہ شیر خان کے رہنے والے تھے اور انہوں نے ہی وارث شاہ کے مزار کی مزید تعمیر اور تزئن کی بلکہ تاریخی باؤلی شیر شاہ سوری جو کہ ایک کھنڈر تھی اسے دوبارہ تعمیر کیا۔ اسی طور چودھری پرویز الٰہی کی سب موقع شناسیاں اپنی جگہ لیکن انہوں نے ایمرجنسی ایمبولینس سروس 1122کا کیا شاندار کارنامہ سرانجام دیا۔ ماڈل ٹاؤن پارک میں ایک صاحب کو دل کا دورہ پڑ گیا۔1122کے اہلکار دس منٹ میں وہاں پہنچ گئے۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد انہیں نزدیکی ہسپتال میں لے گئے۔ مجھے ایک مسئلہ ہوا تو میری بہو نے 1122کو فون کیا اور وہ پہنچ گئے۔ شکریہ چودھری صاحب۔ ویسے آپ اپنے بال سیاہ کالے نہ کیا کریں۔ ’’بی مارکہ خضاب کی بجائے کوئی اچھا سا ہیئر کلر استعمال کیا کریں یہ ایک جاٹ بھائی کا مشورہ ہے۔ اور اب جگر تھام کے بیٹھو کہ میاں شہباز شریف آئے۔ وہ ایک طویل عرصہ حکمران رہے اور اس دوران ایسی شاہراہیں اور فلائی اوور تعمیر کئے جنہوں نے لاہور کی شباہت بدل دی۔ بے شک مجھے جنگلا بس سروس سے شدید اختلاف ہے جس نے لاہور کی صورت بگاڑ دی اور میں اسے دیوار برلن سے تشبیہ دیتا ہوں جس نے لاہور کو کاٹ کر رکھ دیا اور پھر اورنج ٹرین کا مہنگا عذاب جس نے ہماری تاریخ کو مسمار کر دیا۔ لیکن وہ انگریزی کا کیا محاورہ ہے کہ ’’گو دے ڈیول ہز ڈیو‘‘ تو شہباز شریف نے لاہور کے لیے علاوہ جنگلا بس سروس اور اورنج ٹرین جو کچھ کیا میں اس کی تحسین کرتا ہوں۔ جنرل جیلانی‘ پرویز الٰہی کے ہمراہ انہیں بھی لاہور کے محسنوں میں شمار کرتا ہوں لیکن یہ جو ڈولفن فورس کا ’’برین چائلڈ‘‘ ہے اس کا کیا کرنا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان لوگوں کو بیکار نہیں کرنا۔ سرکس میں بھرتی کرا دیں جہاں یہ موت کے کنویں میں اپنی موٹر سائیکلیں چلاتے پھریں۔ یا پھر ان سجیلے مہنگے جوانوں کو ایم ایم عالم روڈ کے ریستورانوں کے باہر شوشا کے لیے تعینات کر دیں ویسے میں نے آج تک کسی ڈولفن کو موٹر سائیکل پر سوار نہیں دیکھا!
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ