ہمارے ملک میں قدیم اور جدید کی کشمکش میں مختلف اصطلاحات استعمال ہوتی آئی ہیں۔ اکبر الہ آبادی نے مرد اور کلرک کے استعارے ایجاد کئے تھے۔ انہیں شکوہ تھا کہ ڈبل روٹی کھا کر خوشی سے پھول جانے والا کلرک جب گھر آتا ہے تو اس کی سکول میں پڑھانے والی بیوی اسے مناسب طریقے سے روٹی پیش نہیں کرتی۔ عبد الماجد دریابادی کبھی خود کو مسٹر کہتے تھے اور پھر مولانا کہلائے۔ ہماری شاعری میں ملا کے استعارے کو تنگ نظری، غیر حقیقت پسندی کے ایسے زاویے اقبال نے عطا کئے کہ اقبال کا ملا جہالت، تعصب، بددیانتی اور بے حسی کا نشان نظر آنے لگا۔ اقبال کے مزار پر کندہ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ میں شہر کی مسجد میں کون سا نالہ بلند کروں جس سے ملا کے دل میں گداز پیدا ہوسکے؟ قیام پاکستان کے بعد جدیدیت کی مزاحمت نے دو اہم زاویے اختیار کئے۔ جمہوریت کی مخالفت اور عورت دشمنی۔ اپریل 1948 میں وزیراعظم لیاقت علی خان کی بیگم رعنا لیاقت نے لاہور میں ایک کانفرنس منعقد کی جہاں عورتوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے کلکتہ سیشن منعقدہ اپریل 1938 میں قائداعظم کے ارشادات کی روشنی میں مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان میں عورتوں کو برابر کے حقوق، آزادیاں دی جائیں۔
قائد اعظم نے اس اجلاس میں فرمایا تھا:
“ہم نے نام نہاد مولاناؤں کے اقتدار کا خاتمہ ایک حد تک کر دیا ہے جو دوسروں کی انگیخت پر قوم کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ ہمیں پورے انہماک اور جوش سے اپنی عورتوں کو بھی ساتھ رکھنا چاہئے۔ (سیرت محمد علی جناح، صفحہ نمبر 202، مکتبہ لیگ بھنڈی بازار بمبئی نمبر4)
چھ برس بعد علی گڑھ یونیورسٹی سے خطاب کرتے ہوئے دس مارچ 1944 کو قائد اعظم نے فرمایا
“No nation can rise to the height of glory, unless women are side by side with you. We are victims of evil customs۔ It is a crime against humanity to shut up women within the four walls of houses as prisoners۔ Let us try to raise the status of women according to Islamic ideals and standards۔ There is no sanction anywhere for the deplorable conditions in which our women have to live۔ We should take the women along with us as comrades in every sphere of life۔ We cannot expect a woman who is ignorant herself to bring up our children properly۔ Women have the power to bring up children on the right lines۔ Let us not throw away this asset۔” (Muslim University of Aligarh March 10, 1944۔)
پاکستان کی خواتین نے تین اپریل 1948 کو لاہور کے اجتماع میں جہاں مفاد پرست عناصر کی طرف سے عورتوں کے خلاف منظم پراپیگنڈا کی مذمت کی۔ عورتوں کی انفرادی اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے لئے متحدہ محاذ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسمبلی میں عورتوں کے بارے میں استعمال کی گئی غیر پارلیمانی اور ہتک آمیز زبان کی سخت مذمت کی گئی۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے پیگم رعنا لیاقت علی خان نے کہا۔
“تحریک پاکستان کے دوران یہ لوگ ہمیں کہتے تھے کہ باہر نکلو، مظاہرے کرو اور جیلوں میں جاؤ۔ مگر اب جب ہم اپنی مصیبت زدہ خواتین کے لئے بھر نکلی ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ برقع میں واپس چلے جاؤ۔‘‘
چند روز بعد پندرہ اپریل 1948 کو بیگم لیاقت علی خان نے روزنامہ امروز کو انٹرویو میں ملاؤں کی اس تحریک کی پرزور مخالفت کی کہ عورتوں کے لئے پردہ لازمی قرار دیا جائے۔ بیگم لیاقت علی خان نے کہا “مردوں کو ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ عورتوں کو قید و بند میں دھکیل کر مفلوج کر دیں۔ ملک و قوم کی بہبود کے لئے عورتوں کو بھی جدوجہد کی اتنی ہی آزادی ملنی چاہئے جتنی مردوں کو حاصل ہے۔ اگر حکومت پردے کو لازمی قرار دینے کے لئے کوئی قانون قرار دیتی ہے تو سب سے پہلی عورت میں ہوں گی جو اس غیر منصفانہ قانون کی خلاف ورزی کر کے اپنے آپکو گرفتاری کے لئے پیش کروں گی۔ اور اس قسم کے قوانین کو توڑ کے دم لوں گی۔”
اس انٹرویو کے بعد بیگم رعنا لیاقت علی خان کے خلاف ملاؤں کی پر زور تحریک شروع ہوگئی۔ کراچی میں وزیراعظم ہاؤس کے باہر ایک جلسے میں مقررین نے وزیراعظم کی بیگم پر رکیک اور شرمناک ذاتی حملے کئے۔ سیالکوٹ کے ایک ملا نے بیان دیا کہ پردہ نہ کرنے والی مسلمان عورتیں طوائفیں ہیں۔ وزیر آباد کے لاہوری دروازہ میں منعقد ہونے والے ایک جلسے میں قرارداد منظور کی گئی کہ ’’وزیر آباد کے مسلمانوں کا یہ جلسہ بیگم لیاقت علی خان اور ان کی دوسری مغرب زدہ ساتھیوں کی ان تقریروں کی پر زور مذمت کرتا ہے جو 3 اپریل 1948 کو لاہور میں کی گئیں۔ ہماری رائے میں اس قسم کی تقریریں اسلامی تعلیمات سے جہالت اور بے خبری اور اینگلو محمڈن مردوں کی انگیخت اور سازش کا نتیجہ ہے۔‘‘ واضح رہے کہ اینگلو محمڈن کی یہ اصطلاح سرسید احمد خان کے عہد سے جدیدیت پسند مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو رہی تھی۔ 1948 میں اس اصطلاح کا سیدھا مطلب قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی ذات پر حملہ کرنا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح پردہ نہیں کرتی تھیں۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان کی طرح لیکن ملاؤں نے اپنی مہم میں قائداعظم کی بہن کے پردہ نہ کرنے کو نظر انداز کرتے ہوئے بیگم لیاقت علی خان کو نشانہ بنایا۔ ان کا مقصد کسی مذہبی اصول کی ترویج نہیں تھا بلکہ سیاسی اشتعال پیدا کرنا تھا اور وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ قائداعظم کی بہن پر الزام تراشی کے نتیجے میں ملاؤں کے خلاف شدید عوامی رد عمل آئے گا۔ روزنامہ تعمیر اور نوائے وقت میں بیگم لیاقت علی خان کے خلاف پے در پے اداریے شایع ہوئے۔ اکتوبر 1951 میں لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کے گھر سے ان اداروں کے تراشے برآمد ہوئے تھے۔
اس پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور عورتوں کے حقوق کی جد و جہد میں بنیادی تعلق ہے۔ مغرب اور مشرق میں بہت سے دانشوروں کا خیال ہے کہ مسلم دنیا میں جمہوریت کی مخالفت کی ایک بڑی وجہ عورتوں کی آزادی کا خوف ہے۔ پاکستان میں ستر برس سے انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے آئی اے رحمان اپنے تجربات کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’پاکستان میں رائے عامہ کی پسماندگی عورتوں کے حقوق کی زنجیر سے بندھی ہے۔‘‘گزشتہ برسوں میں اس مکالمے میں غیرت بریگیڈ اور بے غیرت بریگیڈ کی اصطلاحات اختیار کرلی گئی ہیں۔ قدامت پسند ذہن خود کو غیرت مند قرار دیتا ہے جب کہ عورتوں کے لئے آزادی، حقوق اور مساوات کا مطالبہ کرنے والوں کو بے غیرت قرار دیتا ہے۔ دوسری طرف یہی قدامت پسند ذہن جمہوریت کی مخالفت کرتا ہے اور دہشت گردی کے ذریعے ریاست پر قبضہ کرنے کے خواہشمندوں کی درپردہ حمایت کرتا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ غیرت اور جمہوریت کے تعلق پر سوچ بچار کی جائے۔
(بشکریہ: ہم سب)