انتظار حسین چلے گئے تو اکثر یاد آتے ہیں اگرچہ اُن کے اور میرے درمیان کچھ بھی مشترک نہ تھا۔۔۔ ہمارے ثقافتی رویے سراسر مختلف تھے، اُن کی مسکراہٹ قطعی طور پر یہ بھید ظاہر نہ کرتی تھی کہ اُس میں طنز کے تیر ہیں یا پسندیدگی کی پُھل جھڑیاں پھوٹتی ہیں اور میں نہ اپنی پسند اور نہ ہی ناپسند کو ملفوف کرنے پر قادر تھا۔۔۔ زبان کا برتاؤ جو اُن کے ہاں تھااُس میں ایک بامحاورہ کلاسیکی چاشنی تھی جب کہ میری زبان گنگا جمنا نہیں راوی اور چناب کے پانیوں میں دُھلی ہوئی تھی۔۔۔بلکہ ایک مرتبہ سنگ میل کے شو روم میں گفتگو کے دوران میں نے یونہی اُنہیں چھیڑنے کی خاطر کہہ دیا کہ انتظار صاحب، محاوروں کی بیساکھیاں صرف وہ نثر نگار استعمال کرتے ہیں جو کسی بھی صورت حال کو بیان کرنے سے عاجز ہو جاتے ہیں اور یوں بھی اردو کے کلاسیکی محاورے آج کے عہد میں متروک ہو چکے ہیں اور اُنہیں صرف مزاحیہ تحریروں میں ہی استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔ ظاہر ہے اُنہوں نے اختلاف کیا، کہنے لگے شیکسپیئر کے زمانوں کے محاورے ابھی تک چلے آرہے ہیں تو بھلا اردو محاورے کیسے متروک ہو سکتے ہیں۔ ایسا صرف وہ لوگ کہتے ہیں جو محاوروں کے استعمال سے واقف نہیں ہوتے۔۔۔تب میں نے اُنہیں بتایا کہ ایک روز میری بیٹی سکول سے واپس آئی تو بہت پریشان تھی، کہنے لگی، ابو یہ رادھا کون تھی اور وہ کیوں پتہ نہیں کتنے من تیل کے بغیر ڈانس نہیں کرتی تھی۔۔۔اور اُسے یہ بھی علم نہ تھا کہ یہ بریلی کہاں ہے جہاں بانس اُلٹے چلے جاتے ہیں تو وہ مسکرا کر کہنے لگے۔۔۔ چلو اگر وہ رادھا کو نہیں جانتی تو تم اُسے اپنی گوپیوں کے بارے میں بتاؤ۔۔۔تقریباً دو برس پیشتر فیصل آباد لٹریچر فیسٹیول کے دوران جب عبداللہ حسین اور انتظار کی موجودگی میں کچھ خواتین کتابوں پر آٹو گراف لینے کی خاطر لاؤنج میں دندناتی چلی آئیں تب کہا گیا کہ لو جی تارڑ کی گوپیاں چلی آرہی ہیں۔ مجھ میں اور انتظار میں کچھ بھی مشترک نہ تھا لیکن اس کے باوجود نہ صرف میں نے ہمیشہ اُن کا احترام کیا بلکہ اُن کی افسانوی عظمت کے سامنے سرنگوں بھی ہوا۔۔۔کچھ بھی مشترک نہ تھا سوائے پرندوں کے۔۔۔یہ پرندے تھے جو اپنے پروں سے ہم دونوں کو باندھتے اور باہم کرتے تھے۔ ہم جب کبھی ملتے تان لامحالہ پرندوں پر ٹوٹتی۔۔۔کبھی کبھار جناح باغ میں ملاقات ہو جاتی تو ہمیشہ پرندوں کی باتیں کرتے۔ کامران سلیم کی تصویری البم ’’ برڈز آف
سیالکوٹ‘‘ شائع ہوئی جس کی ٹیکسٹ اور عنوان وغیرہ میں نے لکھے تھے تو میں نے کامران سے کہا ۔۔۔ ’’سب سے پہلی کتاب انتظار صاحب کو پیش کرو کہ وہ شخص پرندوں کی زبان سمجھتا ہے‘‘ انتظار صاحب اتنے متاثر ہوئے کہ اس کے بارے میں ایک شاندار کالم لکھا بلکہ کچھ پرندوں کے انگریزی ناموں کو ناپسند کرتے ہوئے اُن کے اردو نام بھی تجویز کئے۔۔۔ اُنہوں نے میرے دیباچے کو بھی سراہا۔۔۔مجھے یاد ہے کہ میرے پہلے سفرنامے ’’نکلے تری تلاش میں‘‘کے حوالے سے اُنہوں نے ’’مشرق‘‘ میں ایک بہت توصیفی کالم لکھا جس پر میرا حوصلہ بڑھا۔ ازاں بعد وہ قدرے احتیاط پسند بوجوہ ہو گئے، یہ نہیں کہ وہ میری تحریر سے سراسر غافل ہو گئے۔ ڈاکٹر آصف فرخی کا کہنا ہے کہ جب وہ اردو کے بڑے ناولوں کے بارے میں ایک تفصیلی تذکرہ لکھ رہے تھے تو انتظار صاحب نے اُن سے پوچھا تھا کہ اس میں تارڑ کا ناول ’’راکھ‘‘ شامل ہے ناں، وہ ایک بڑا ناول ہے، بہرطور یہ پرندے تھے جو ہم دونوں کو باہم کرتے تھے اور وہ میری ’’پرندہ شناسی‘‘ کے بہت مداح تھے۔۔۔خاص طور جب میں نے اُنہیں بتایا کہ باغ جناح میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب درختوں کا جو ایک گھنا ذخیرہ ہے اُس کے بھیتر میں ایک قدیم شجر میں ہر سویر کوئی ان دیکھا پرندہ کُوکتا تھا اور میں اُس شجر تلے کھڑا ہو کر اُسی کے لہجے میں کُوکتا تھا تو وہ مجھے جواب دیتا تھا۔ ہم دونوں باتیں کرتے تھے۔۔۔دیگر لوگ میری ذہنی حالت پر شک کرتے تھے لیکن یہ انتظار حسین تھے جنہوں نے میرا تمسخر نہ اڑایا۔ مجھ پر کامل یقین تھا۔۔۔ جن برسوں میں صبح کی نشریات کے سلسلے میں مجھے اسلام آباد قیام کرنا پڑا تو میں نے اُنہیں اپنے ایک ذاتی تجربے میں شریک کیا ’’انتظار صاحب۔۔۔ اسلام آباد میں سرشام پرندوں کے غول کے غول راولپنڈی کی جانب اڑان کرتے نظر آتے ہیں اس لئے کہ وہ خوراک کی تلاش میں ادھر آتے ہیں لیکن یہاں بسیرا نہیں کرتے، اسلام آباد کے شجر بیشتر غیرملکی درآمد شدہ ہیں اور وہ اُن میں گھونسلے نہیں بناتے، پنڈی میں اُن کے آبائی شجر برگد، شیشم اور بیریوں کے گھنے ہوتے ہیں، وہ اُن کی جانب لوٹ جاتے ہیں تو انتظار صاحب کی حیرت اور مسرت دیدنی تھی۔ شاید اس لئے بھی کہ انتظار نے بھی کبھی ادھر کے شجروں میں قیام نہ کیا۔ وہ اپنی تحریروں کے گھونسلے اپنے آبائی ڈبائیوں میں ہی جا بناتے تھے۔۔۔اُنہیں میری تحریروں میں فرید الدین عطار کی ’’منطق الطیر‘‘ کے پرندوں کی اڑانیں بھی بہت پسند تھیں۔
لاہور میں پرندے بہت کم ہو گئے ہیں۔۔۔کبھی یہاں رنگ رنگ کے مرغ زرّیں چہکتے تھے۔۔۔ شجر بہت تھے اور آدمی کم اور اب آدمی بہت ہو گئے ہیں اور شجر گھٹ گئے ہیں، گھروں اور کوٹھیوں کے گرد کٹھی کے پودوں کی باڑیں ہوا کرتی تھیں جن میں وہ گھونسلے بناتے تھے۔ اُن کی جگہ اینٹوں کی چار دیواری نے لے لی ہے تو پرندے اینٹوں میں گھونسلے کہاں بنائیں چنانچہ وہ رخصت ہو گئے ہیں۔ رہی سہی کسر شاہراہوں اور نیلی پیلی بسوں اور ٹرینوں کے بھدّے سیمنٹ کے انباروں نے پوری کردی ہے، پرندے چونکہ میٹرو بسوں اور اورنج ٹرینوں پر سفر نہیں کرتے، اس لئے وہ کوچ کر گئے ہیں۔ البتہ شہر میں کوّے بہت رہ گئے ہیں۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا رنگین پروں والا پرندہ آنکلے تو کوّے اُسے ٹھونگیں مار مارکر زخمی کرکے بھگا دیتے ہیں۔ لاہور اب کوّوں کی سلطنت کا پایہ تخت ہے۔۔۔سیاست، قیادت، ادب کیا صحافت کیا، کوّے ہی کوّے۔
انتظار حسین کیا گئے کہ اپنے ساتھ لاہور کے سب رنگ رنگ کے پرندے بھی لے گئے اور ہمیں کوّوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔۔۔
فیس بک کمینٹ