جمہوریت پسند حلقے امید لگائے بیٹھے تھے کہ عمران حکومت کا جاناہائبرڈ سیاسی بندوبست کے خاتمے کا نکتہ آغاز بنے گا۔ انہیں آئین و قانون کی حکمرانی اور سویلین بالادستی کے راستے کی مشکلات کم ہوتی نظر آ رہی تھیں۔ لیکن عمران حکومت گرنے اور شہباز اتحادی حکومت آنے کے بعد جمہوریت پسندوں کی امیدیں دھندلانے لگیں۔ مقتدرہ کے سیاسی معاملات سے الگ تھلگ رہنے کے اعلانات بھی ہوا ہوتے نظر آنے لگے۔ اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان کی جارحانہ حکمت عملی نے شہباز اتحادی حکومت کو سکھ کا سانس نہ لینے دیا۔اتحادی حکومت کو معاشی بحران، کمر توڑ مہنگائی اور عمران خان کے سیاسی دباو سے نبر آزما ہونے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حالات میں کمزور اتحادی حکومت کو مقتدرہ کی بیساکھیوں کا سہارا لینے کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ اتحادی حکومت بھی ہائبرڈ بندوبست کا تسلسل ثابت ہوئی۔ شہباز حکومت سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران اور مہنگائی کے خاتمہ کے لئے ٹھوس حکمت عملی اپنانے سے قاصر رہی۔عمران خان کی جارحانہ حکمت عملی اور عوامی حمائت سے محروم شہباز حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے حکومت پر غیر سیاسی قوتوں کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی۔ شہباز اتحادی حکومت کے دن پورے ہونے کے بعد نگران حکومت براجمان ہوگئی اور ملکی معاملات میں مقتدرہ کی چھاپ مزید گہری ہوتی گئی۔
9 مئی کی مہم جوئی کے بعد پی ٹی آئی کے خلاف ریاستی کریک ڈاون کو جمہوری قوتوں کی پسپائی سے تعبیر کیا جانا چاہئے۔ یہ مہم جوئی نہ صرف عمران خان کی سیاسی خودکشی ثابت ہوئی بلکہ پی ٹی آئی کو زندہ در گور کرنے کا بہانا بن گئی۔ اس وقت مقتدرہ کی ریاستی اور سیاسی معاملات میں عمل دخل کی حدیں متعین کرنا مشکل ہے۔ اس وقت نگران حکومت کو مقتدرہ کا سویلین چہرہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہو گا۔ آج کی صورت حال میں مزاحمتی سیاست کی تاریخ رکھنے کا دعویٰ کرنے والی پیپلز پارٹی، ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ بلند کرنے والی ن لیگ کے علاوہ دیگر بڑی چھوٹی جماعتیں مصلحت کوشی کا شکار ہو چکی ہیں۔ جبکہ ہائبرڈ بندوبست آب و تاب سے پاکستان کی حکمرانی کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ ہائبرڈ جمہوریت کے استحکام نے صرف پی ٹی آئی کے پرخچے نہیں اڑائے بلکہ مجموعی طور پر سیاسی قوتوں کی کمر توڑ دی ہے۔
1999ء کے بعد ن لیگ، اب پی ٹی آئی اور ان دونوں جماعتوں سے قبل کئی بار پی پی پی کی درگت بنائی جاتی رہی۔ کئی دہائیوں کے دوران ریاستی جبر سہنے کے باوجود سیاسی و جمہوری قوتوں نے مشکل ترین حالات میں بھی جمہوری نظام کے لئے جدوجہد ترک نہیں کی۔ اسٹبلشمنٹ کی چیرہ دستیوں اور جرنیلی ماشل لاوں کے مظالم کے باوجود جمہوری قوتیں اور سیاسی جماعتیں اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شہادتیں جمہوری جدوجہد کرنے والوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ نواز شریف کی جلاوطنی اور قید و بند کی صعوبتیں جمہوری تاریخ کا حصہ ہے۔ خان عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، نوابزادہ نصراللہ خان، معراج محمد خان، میجر محمد اسحاق اور جام ساقی کے علاوہ سینکڑوں عوام دوست سیاسی راہنما وں کی بے مثال قربانیاں پاکستان کی جمہوری جدوجہد کا سنہری باب ہے۔
فری، شفاف اور دھاندلی سے پاک انتخابات کا انعقاد پاکستان میں جمہوری جدوجہد کا اہم حصہ رہا ہے۔ دھاندلی زدہ جھرلو الیکشن، ریاستی اداروں کی مداخلت سے انجئنیرڈ اور مینیجڈ انتخابات ہماری سیاسی تاریخ کا بد نما حصہ رہا ہے۔ ۱۹۷۰ کے انتخابات کے علاوہ آج تک منعقد ہونے والے تمام انتخابات کو ہارنے والی جماعتیں جھرلو الیکشن کہتی رہی ہیں۔ جس کا ذمہ دار اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کو ٹہرایا جاتا رہا ہے۔الزامات لگائے جاتے رہے ہیں کہ قبل از الیکشن سیاسی انجینئرنگ اور الیکشن مینیجمنٹ سے اسٹبلشمنٹ اپنی من پسند سیاسی جماعتوں کو کامیاب کرانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ الیکشن کے دن دھاندلی سے ووٹوں کی ہراپھیری بھی کی جاتی ہے۔ اس کی تازہ مثال ۲۰۱۸ کے عام الیکشن کہے جاتے ہیں، جن کے ذریعے پی ٹی آئی کی جیت ممکن بنائی گئی تھی۔ یاد رہے کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل میاں نواز شریف اور انکی بیٹی مریم نواز کو قید کیا گیا۔ ثاقب نثار کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دے کر انکو ن لیگ کی صدارت سے بھی محروم کر دیا۔ ساتھ ہی ن لیگ کی توڑ پھوڑ کرکے پی ٹی آئی کے اقتدار کا راستہ ہموار کیا گیا۔ اس کے علاوہ الیکشن کے دن ووٹوں کی کھلی ہراپھیری سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔
اب 2018 کے الیکشنوں کی تاریخ دہرائی جانے کے واضح آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے علاوہ پارٹی کے متعد راہنماوں کو جیلوں میں بندکر کے پارٹی کا شیرازہ بکھیر دیا گیا ہے۔ عمران خان الیکشن کے لئے نااہل ہیں اور پارٹی کی چیئرمین شپ چھوڑنے پر مجبور کر دئے گئے۔ پنجاب، کے پی کے اور کراچی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی راہنماوں کی اکثریت پارٹی سے اظہار لاتعلقی کا اعلان کر چکی ہے۔ قیادت اور سیاسی لائحہ عمل سے محروم پی ٹی آئی کے کارکن ذہنی انتشار اور بے بسی کا شکار ہیں۔ 2024 ء فروری کے متوقعہ انتخابات میں پنجاب کے میدان میں نواز شریف کو چیلنج کرنے والا دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔ میاں نواز شریف اور ن لیگ کے لئے اقتدار کے راستے کی رکاوٹیں آہستہ آہستہ دور کر دی گئی ہیں۔ اب وزیر اعظم نواز شریف بنتے ہیں یا کوئی اور یہ فیصلہ میاں گھرانے کا اندرونی معاملہ ہے۔
سیاسی حلقوں میں یہ ابہام نہیں ہے کہ فروری 2024ء کے الیکشنوں کے بعد وفاقی حکومت کونسی پارٹی تشکیل دے گی۔ ہائبرڈ والوں کے اشارے بڑے واضع ہیں۔ بعد از الیکشن کے نقشے کی لکیریں کھینچی جا رہی ہیں۔ صرف عوامی تصدیق کی مہر لگنا باقی ہے جو ۸۔ فروری کو سبط ہو جائے گی۔ پنجاب میں میاں کا ڈنکا بجے گا۔ سندھ سے پی پی پی کو بھگانا مشکل ہے۔ کے پی کے سے جے یو آئی، بلوچستان سے باپ پارٹی اور چند قبائلی سردار، کراچی سے ایم کیو ایم اور پنجاب سے چوہدری شجاعت کی ق لیگ مخلوط حکومت کا حصہ بننے کو بے قرار ہیں۔ ان حالات میں جمہوری حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ کیا الیکشنوں کے بعد متوقعہ ن لیگی حکومت ہائبرڈ جمہوریت کا تسلسل ہو گی، جیسے شہباز حکومت تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا میاں نواز شریف اقتدار کی ہوس اور عمران سے انتقام کی آگ میں اندھے ہو کر جمہوری اقدار، سویلین بالادستی، آئین اور قانون کی حکمرانی کے عظیم اصولوں کو پاؤں تلے روندنےکو تیار ہو جائیں گے۔
فروری2024 کا الیکشن پاکستان کے لئے تو نہیں مگر میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی میں ایک نازک موڑ ضرورہے۔ تاریخ کے اس موڑ پر میاں نواز شریف کے حوصلے، تدبر اور جمہوریت پسندی کے امتحان کا وقت ہے۔کیا میاں نواز شریف آئین وقانون کی حکمرانی کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ہائبرڈ جمہوریت سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، یا اقتدار کی ہوس میں اسٹبلشمنٹ کے کٹھ پتلی ہائبرڈ وزیراعظم بننے کو ترجیح دیں گے۔ چوائس میاں نواز شریف کا اپنا ہو گا۔ وہ اپنا نام جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے والے عظیم راہنماوں کی فہرست میں لکھوانا چاہتے ہیں یا جمہوریت دشمن قوتوں کے گماشتوں کی فہرست میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ جمہوری حلقے امید کرتے ہیں کہ الیکشنوں کے بعد تمام جمہوری قوتوں بشمول پی ٹی آئی کے ساتھ وسیع تر جمہوری اتحاد کے ذریعے میاں نواز شریف ایک نئے جمہوری دور کا آغاز کریں گے۔ جو ہائبرڈ جمہوریت سے چھٹکارہ پانے کا ذریعہ بن سکے گی۔ جس سے آئین و قانونی کی حکمرانی اور سویلین بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ممکن ہو سکے۔ میاں صاحب ذراغور کریں تاریخ نے آپ کو پاکستان کا اردوان بننے کا سنہری موقعہ فراہم کیا ہے۔