میں نے جنوری 2015 میں شوکت خانم ہسپتال لاہور میں نوکری شروع کی تو ساتھ ہی پچھلے انسٹیٹیوٹ سے اس کا موازنہ بھی شروع کردیا۔ یہ بہت فطری چیز ہےکہ ہم کسی بھی نئی جگہ کا تجزیہ شروع کر دیتے ہیں کہ یہاں یہ چیز نہیں ہے اور یہ یہاں ہے پچھلی جگہ پر نہیں تھی۔ مجھے کوریڈور میں نیوکلیر میڈیسن کے سربراہ ڈاکٹر خالد نواز ملے، بڑے لوگوں کا ایک جملہ بھی اثرانگیز ہوتا ہے اور ہمیشہ کے لیے ذہن پر نقش ہو جاتا ہے۔ ”یہاں دل لگ گیا یا ابھی تک موازنہ ہی کر رہے ہو؟“ میں حیران رہ گیا۔ میں اس وقت یہ سوچ رہا تھا کہ آغا خان ہسپتال کے برعکس شوکت خانم ہسپتال کے مریضوں کو بیماری کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں ہوتی یا دی نہیں جاتی۔ میں نے ڈاکٹر خالد کو فوراً جواب دیا کہ موازنہ بلکہ مقابلہ کر رہا ہوں۔ وہ مسکرا کر آگے بڑھ گئے۔
کسی نئی جگہ پر ایڈجسٹ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم جلد از جلد اسے اس کی خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کر لیں۔ جب ہم وہاں کام کرتے ہیں تو ہمارے پچھلے تجربات نئے انسٹیٹیوٹ کے نظام پر خودبخود اثرانداز ہوتے ہیں۔ یوں ہماری وجہ سے وہاں مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ کام کے دوران ہم نئی چیزیں سیکھتے ہیں جو پچھلی جگہوں پر ہم نہیں سیکھ سکے تھے۔
ایک جملہ ہم اکثر بولتے اور سنتے ہیں کہ فلاں کا فلاں سے موازنہ بنتا ہی نہیں کیونکہ فلاں تو کئی گنا بہتر ہے۔ مثال کے طور پر آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم کا موازنہ نیپال سے بنتا ہی نہیں۔ اگر آسٹریلیا کا موازنہ کرنا ہی ہے تو انڈیا سے کریں۔یہ بھی درست ہےکہ پاکستان میں صحت کی 80 فی صد سہولیات نجی شعبے کے ہاتھوں میں ہیں۔ بیس فیصد سرکاری ہسپتال چونکہ سستے ہیں اس لیے وہاں صرف وہ لوگ جاتے ہیں جو نجی ہسپتالوں میں علاج کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ کینسر کا علاج بھی نجی شعبے میں بہت مہنگا ہے اس لیے پاکستان اور دنیا بھر میں کینسر کا علاج خیراتی یا ٹرسٹ ہسپتالوں یا فری یا سستے حکومتی اداروں میں کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے پبلک سیکٹر میں کینسر کے بچوں کی اکثریت علاج کے لیے جاتی ہے۔ لیکن وہاں کینسر کے علاج کا معیار نجی اداروں کے مقابلے میں بہت برا ہے۔ وہاں بستروں کی تعداد کم ہے اور کئی بار ایک ہی بستر پر دو یا تین بچے بھی لٹا دیے جاتے ہیں۔ یہ بچے غریب یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور غذائی قلت کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں بآسانی جراثیم لگ جاتے ہیں اور ان میں سے اکثر بچے کیمو تھیراپی کی شدت برداشت نہیں کر پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ہسپتالوں میں بچوں کے کینسر میں کامیابی کی شرح صرف بیس فیصد ہے جو نجی کینسر ہسپتالوں کے مقابلے میں بہت ہی کم جہاں یہ شرح 80 فیصد تک ہے۔اس کے علاوہ ان ہسپتالوں میں کینسر کی تشخیص جیسے امینونوفینوٹائپنگ اور پتھالوجی اور اسٹیجنگ جیسے سی ٹی اسکین، ایم آر آئی بون اسکین، رینل اسکین اور پیٹ اسکین کی سہولیات بھی ناکافی ہیں یا سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔
میری خوش قسمتی ہے کہ میں پاکیستان میں بچوں کے سرطان کے سرکاری اور نجی شعبوں میں کام کر چکا ہوں۔ علاج کے معیار میں بےانتہا فرق کی وجہ سے نجی اور سرکاری ہسپتالوں کا موازنہ ممکن ہی نہیں ہے۔ شوکت خانم ہسپتال جیسے ادارے سرکاری ہسپتالوں کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی معیار کو حاصل کرنے کے لیے سرکاری ہسپتالوں کو نجی ہسپتالوں کے معیار سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نجی ہسپتال ایک حد تک خیرات کے ذریعے غریبوں کے علاج کا بوجھ اٹھاتے ہیں جو بےحد ناکافی ہے۔ حکومت سرکاری ہسپتالوں کا معیار بہتر بنانے کے لیے ان کو پرائیوٹائیز کرنے کی تگ و دو کر رہی ہے۔ یہ مسائل کا حل نہیں ہے۔مسائل کا حل یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کے معیار کو سرکاری نگرانی میں بہتر بنایا جائے۔ موجودہ سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں شاید یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ سرمایہ دار فوجی اور حکومتی شخصیات کے ذاتی مالی مفادات نجی ہسپتالوں اور نجکاری سے جڑے ہوئے ہیں۔