فن اور فنکار زندگی کے ماتھے کا جھومر ہیں ۔یہ اپنے لفظوں ،رنگوں ، سُروں سے زندگی کے حُسن کا احساس دلاتے ہیں ۔جینے کی لگن تقسیم کرتے ہیں اور زندگی کا مان و مرتبہ بڑھاتے ہوئے اسے معتبر کرتے ہیں تخلیق کار فن کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو اسے اپنے قبیلہ کشتگاں سے وابستگی اور رابطے کی ضرورت رہتی ہے ۔چائے خانہ ، کافی ہاو¾س ، چوپال ،بیٹھک وہ مقامات ہیں جہاں عموماََ فنکار مل بیٹھتے ہیں اور تبادلہ خیال کرتے ہیں ۔نئی تخلیقات پر بحث ہوتی ہے ادب اور معاشرے کے تعلق پر روشنی ڈالی جاتی ہے ۔شعور، محبت ،اقدار اور عصری تقاضوںپر گفتگو کی جاتی ہے ۔دُنیا میں بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں کسی بڑے ادیب ، شاعر ، مصور یا موسیقار کی نشست رہی اور اب وہ اسی نسبت سے پہچانے جاتے ہیں اور فن سے محبت کرنے والوں کے نزدیک ایک محترم حیثیت رکھتے ہیں ۔ پاکستان میں قریباََ ہر بڑے شہر میں ایسے چائے خانہ ،کافی ہاو¾س موجود ہیں جہاں تخلیق کار بیٹھ کر مکالمہ کرتے ہیں ۔مدینتہ الاولیاءشروع سے ایک علمی ،ادبی اور روحانی شناخت بھی رکھتا ہے جو عقیدت مندوں کو یہاں احتراماََ ننگے پاو¾ں آنے پر مجبور کرتی ہے ۔ملتان میں ادبی بیٹھکوں اور فنکاروں کے مابین مکالمے کا سلسلہ بھی ایک تواتر سے قائم رہا ہے ۔ ملتان میں حزیں صدیقی کی بیٹھک سے بہت سے نوجوانوں نے فیض اُٹھایا ۔ملتان کینٹ میں ڈاکٹر مقصود زاہدی کا کلینک ایک طویل عرصہ تک ادیبوں کا مرکز رہی ۔ ممتاز العیشی کے ہاں بھی باقاعدگی سے شعراءکی نشست ہوتی رہی ۔ اس کے علاوہ دہلی مسلم ہوٹل ، کیفے عرفات ،ارشد ملتانی کا کلینک اور بابا ہوٹل نواں شہر بھی ایسے مقامات ہیں جہاں ملتان اور گردونواح سے آنے والے شعراءو ادبا محفل جماتے رہے ۔ بابا ہوٹل وہ آخری بیٹھک تھی جہاں ہم نے حیدر گردیزی ،حسین سحر ،اقبال ارشد ، اصغر علی شاہ ، ڈاکٹر محمد امین ،ارشد ملتانی ، انور جمال اور ان جیسے کئی نابغہءروز گار افراد کو باقاعدگی سے آتے جاتے دیکھا ۔ باباہوٹل کے علاوہ جتنے بھی مراکز تھے وہ کسی فردِواحد کے مرہونِ منت تھے اور اس کے رخصت ہوتے ہی ویران ہوتے چلے گئے ۔ ملتان میں مختلف ادبی تنظیمیں بھی اپنے اجلاس منعقد کرتی ہیں جن میں اردو اکیڈمی اور ملتان آرٹس فورم کے نام نمایاں ہیں ۔اردو اکیڈمی ڈاکٹر عرش صد یقی ،ڈاکٹر انوار احمد ، ڈاکٹر اے بی اشرف ،نعیم چوہدری کے بعد ایک رسمی حیثیت اختیار کر گئی ۔آرٹس فورم کو پروفیسر خالد سعید اور ڈاکٹر عامر سہیل نے اپنی تخلیقیت سے ایک اہم شناخت دی ہے ۔ کینٹ میں نذیرے کا ہوٹل نجم الاصغر شاہیا اوررضی الدین رضی کی نشست تھی جہاں ملتان کے ادیب و شعراءتشریف لاتے تھے ۔وہیں ایک شام نجم الاصغر شاہیا نے تجویز دی کہ ملتان میں ایک ایسی ادبی بیٹھک ضرور ہونی چاہیے جہاں قلم کار مکا لمہ کر سکیںاس محفل میںنجم الاصغر شاہیا ، رضی الدین رضی ،شاکر حُسین شاکر ، قمر رضا شہزاد ، ضیاءثاقب بخاری ، نوازش علی ندیم ، سہیل عابدی ، راشد نثار جعفری اور دوسرے کئی نوجوان بھی موجود تھے ۔ اس تجویز نے مہمیز کا کام کیا ۔ آرٹس کونسل کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر محمد علی واسطی نے مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے آرٹس کونسل کا ایک کمرہ سُخن ور فورم کے لیے مخصوص کیا اور یوں 12فروری 2010ءکو سُخن ور فورم کی ادبی بیٹھک کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ یہ وہ دن تھا جب بیٹھک کے پہلے اجلاس میں ملتان کے قلم کاروں ،شاعروں ،ادیبوںکی بڑ ی تعداد نے اپنی شرکت سے اسے ایک یاد گار تقریب بنا دیا ۔پہلے اجلاس میں شریک ہو نے والوں میں ڈاکٹر اسد اریب ،ڈاکٹر محمد امین ،ڈاکٹر صلاح الدین حیدر ،محمد علی واسطی ،رضی الدین رضی ،شاکر حُسین شاکر ،جمشید رضوانی ،سجاد جہانیہ ،نوشابہ نرگس ، ماہ طعلت زاہدی ، راحت وفا اور ملتان سے بہت سے نوجوان لکھنے والے شریک ہوئے ۔ادبی بیٹھک کے قیام سے ملتان کے ادب میں یکسانیت اور جمود کا خاتمہ ہوگیا ۔ بیٹھک کے پروگراموں میں اتنا تنوع اور ہمہ گیریت تھی کہ نہ صرف ملتان بلکہ گردو نواح مثلاََ وہاڑی ،خانیوال ، بورے والا ،مظفر گڑھ ،لیّہ ،کوٹ ادو ،میاںچنوں ،ڈی جی خان اور بہاولپورسے تعلق رکھنے والے بھی بیٹھک میں اپنی شرکت کو ایک اعزاز تصور کرنے لگے ۔ یہاں پنجابی ، سرائیکی ،اردو کے تمام لکھنے والوں کو یکساں احترام دیا گیا جس نے سُخن ور فورم کو ایک معتبر نام بنا دیا ۔ تقریبات کے تنوع کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھئے ۔ ادبی بیٹھک میں مشاعروں کے ساتھ شام افسانہ اور کالم نگاروں کے ساتھ ایک شام کا انعقاد کیا گیا ۔ایک شام دو شاعر کے عنوان سے نوجوان اور سینئر شعراءکو بیک وقت سٹیج پر بٹھا کر ان کا کلام سُنا گیا ۔ خواتین کا مشاعرہ منعقد کیا گیا ۔ شامِ موسیقی میں ملتان میں ثریا ملتانیکر ، نعیم الحسن ببلو ، ثوبیہ ملک اورارشاد علی نے شرکت کی ۔ کتابوں کی تقریبِ رونمائی کے علاوہ مصوری، خطاطی کی نمائش کا اہتمام کیاگیا ۔ ریشم دلانِ ملتان کے نام سے دو روزہ میلہ جس میں یہاں کی ثقافتی تصویر سامنے لائی گئی ۔ اس کے علاوہ جنوبی پنجاب کی اہل ِقلم کانفرنس بھی ادبی بیٹھک کا امتیاز ہے ۔ جس میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے 600اہلِ قلم شریک ہوئے ۔ سُخن ور فورم کا ایک بڑاکام جس پر سُخن ور کے اراکین بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں وہ ادیبوں ، شاعروں کے علاج کے لیے فنڈ ریزنگ ہے وہ قلم کار جو گوشہ نشینی اور تنہائی کو اپنی ذات کا حصّہ بنا چُکے تھے انہیں واپس ادبی دھارے میں لانا اور ان کی تخلیقات کو منظرِعام پر لانا ادبی بیٹھک کا ایک نمایاں کارنامہ ہے ۔ نظم گو شاعر رحمان فراز ،اقبال ساغر صدیقی اور لطیف الزماں خان جیسی ہستیوں کو ادبی بیٹھک میں لا کر ان کی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا اور اُنہیں پھول پیش کیئے گئے ۔آج اگر ملتان میں ادیبوں شاعروں کی سالگرہ تسلسل سے منائی جا رہی ہے تو یہ اعزاز ادبی بیٹھک کو حاصل ہے کہ اس نے ایسی روایت قائم کی جس کی سب پیروی کر رہے ہیں ۔رفتگاں کے لیے تعزیتی ریفرنس کا اہتمام بھی ادبی بیٹھک کا حصّہ ہے ۔ادبی بیٹھک کے سات سال مکمل ہونے پر تمام اراکین سُخن ور فورم کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے دُعا گو ہوںکہ جس طرح اُنہوں نے ملتان ، ملتان کی ادبی شناخت اور ملتان کے لوگوںکو محترم کیا ہے ۔ اس طرح زندگی ہمیشہ اُنہیں ممتازو محترم رکھے ۔
فیس بک کمینٹ