میٹرو سے اُتری تو سڑک پار کرنے کی بجائے آج میں اپنے الٹے ہاتھ پر چل دی۔ شام کی اذان کا وقت تھا اور سرمئی بادلوں تلے گیلی سڑک پر چلنے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ تقریباً پانچ منٹ کی واک پر وہ ہوٹل تھا جہاں سے امی کے حکم کے مطابق دفتر سے واپسی پر کباب خریدنے گئی تھی۔بھوک زوروں پر تھی تو سوچا کہ مزیدار مینو میں سے ایک ڈیل میں اپنے لئے بھی لے لوں۔ پھر ارادہ ترک کیا کہ چھوڑو یار بجٹ آؤٹ ہو جائے گا، گھر جا کر ہی کھانا کھاتے ہیں۔ سوچتے ہی گاہکوں کی لمبی لائن کو کاٹتی آگے بڑھی اور جلدی سے اپنا آرڈر پیک کروا کر باہر نکلی۔ ابھی بمشکل پہلا قدم ہی باہر رکھا ہو گا کہ دو جوان، خوش شکل، دراز قد اور مناسب سے میک اپ میں ملبوس خواتین نے مجھے آواز لگائی۔ان میں نے ایک نے رائل بلیو حجاب اور دوسری نے کریم قمیص اور میچنگ دوپٹہ لے رکھا تھا۔ دونوں کے نقوش خوبصورت تھے اور میری ہم عمر یا مجھ سے کوئی ایک دو سال چھوٹی ہی معلوم ہوتی تھیں۔ ان کے ساتھ ایک دبلا سا لگ بھگ 10 سے12 سال کا بچہ بھی کھڑا تھا جو دیکھنے میں صحت مند اور بالکل نارمل تھا۔’سنئیے، ہمارے بھائی کو تھیلیسیمیا ہے اور ہم ابھی پمز ہسپتال سے آ رہے ہیں۔ اس کا پلاؤ کھانےکا دل کر رہا تھا۔ مگر ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔پلیز ہمیں اس معصوم بچے کو پلاؤ کھلانے کے لیے پیسے دے دیں۔’ نیلے حجاب والی نے معصوم سا چہرہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
میرے ایک ہاتھ میں کباب کا پیکٹ اور دوسرے میں پرس تھا۔ میں نے اپنا پرس سیدھا کرتے کرتے اس کو حیرانی سے دیکھا، پھر بچے کو غور سے دیکھنے کی کوشش کی کہ کہیں میں غلط تو نہیں سمجھ رہی پھر کریم کپڑوں والی کو کچھ سوچتے ہوئے دیکھا تینوں میری جانب ایسے دیکھ رہے تھے جیسے شکاری تیر چلا کر دیکھتا ہے کہ نشانے پر لگا کہ نہیں۔ انھوں نے شاید ابھی نیا نیا دھوکہ دینا سیکھا تھا اس لیےکہ وہ انجان تھے کہ تھیلیسیما جیسے مرض میں پلاؤ نہ کھانے کو دل کرتا ہے نہ کھلایا جاتا ہے (ہیلتھ جنرلسٹ ہوں، اتنا تو جانتی ہوں)۔ اس میں مریض کو خون لگوانا پڑتا ہے ہر دس سے پندرہ دن بعد اس لیے کہ خون بنانے والے خلیے خون پیدا ہی نہیں کر پاتے۔دوسرے یہ کہ تھیلیسیما کا مریض جب خون لگوا کر واپس آتا ہے تو اس کے ہاتھ پر نشان رہ جاتا ہے۔ایسے میں وہ پلاؤ نہیں بلکہ بستر مانگتا ہے بس۔۔ جب کہ ایسا کوئی نشان بچے کے ہاتھ پر نہیں تھا اور نہ ہی وہ زرد تھا جیسا کہ ایسا مریض ہو جاتا ہے اور تیسرے، پلاؤ عام انسان کے لیے بھی صحت بخش نہیں ہے۔ اور وہ خواتین مریض کو پلاؤ کھلانے “ہوٹل” لے آئی تھیں (کھلانا ہی تھا تو گھر کا بنا کھِلا دیتیں)۔۔ وہ بھی ہسپتال سے سیدھا (یعنی پمز سے بلیو ایریا تک جس کا فاصلہ لگ بھگ 3 سے 4 کلو میٹر ٹیکسی یا میٹرو سے بن جاتا ہے)۔ یہ سب باتیں سوچتے پہلے تو مجھے خوب غصہ آیا اور دل کیا کہ یہیں لوگوں کے درمیان کھڑے کھڑے پیسے نکالنے کی بجائے اپنا پریس کارڈ دکھا کر تھیلیسیما کے بارے میں کچھ آگاہی دیتی جاؤں تاکہ اگلی دفعہ ان کے کام آ سکے۔ پھر خود سے ہی ہنسی آنے لگ گئی کہ مجھے کیا ضرورت اگر وہ خود کو خود سےہی دھوکے میں رکھنا چاہتی ہیں تو۔ ہمیں تو حکم ہے کہ انکار نہیں کرنا کبھی “چاہے سوالی گھوڑے پر بیٹھ کر ہی کیوں نہ آئے” یہ سوچتے ہی میں نے اپنا کارڈ واپس پرس میں ہی رہنے دیا اور چپ کر کے پلاؤ کے پیسے نکال کر نیلے حجاب والی کو تھما دئیے۔۔ آگے وہ جانیں اور ان کا خدا جانے۔
فیس بک کمینٹ