لندن : بھارتی وزیر شندلیہ گریراج سنگھ کی ایک ٹویٹ حال ہی میں وائرل ہوئی جس میں انھوں نے پاکستانی علاقے بالاکوٹ میں انڈین فضائیہ کی کارروائی سے ہونے والا مبینہ نقصان کی تصاویر دکھائی تھیں۔گریراج سنگھ نے ایک ہندی نیوز چینل کی ویڈیو بھی شیئر کی جس میں کہا گیا کہ یہ شدت پسند تنظیم جیشِ محمد کا وہ کیمپ ہے جو انڈین فضائیہ کے حملے میں تباہ ہوا۔وزیر نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’یہ تصاویر واضح طور پر دکھا رہی ہیں کہ انڈین فضائیہ نے پاکستان میں دہشت گردوں کے تربیتی کیمپ کو تباہ کر دیا ہے۔‘اس ویڈیو میں دو سیٹلائٹ تصاویر دکھائی گئیں جن میں سے ایک کے بارے میں کہا گیا کہ وہ حملے سے پہلے یعنی 23 فروری کی ہے اور دوسری حملے کے بعد 26 فروری کو لی گئی ہے۔اس ویڈیو کو ہزاروں افراد نے شیئر کیا اور یہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ بےشمار افراد نے ان سیٹلائٹ تصاویر کو فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ پر یہ کہتے ہوئے شیئر کیا کہ یہ انڈین حملے میں کیمپوں کی تباہی کا ثبوت ہیں۔تاہم کیمپ کی تباہی کی جو تصاویر بطور گریراج سنگھ اور دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سے ثبوت شیئر کی جا رہی ہیں ان میں کئی نقائص ہیں۔ گوگل پر ریورس امیج سرچ کی مدد سے معلوم ہوا کہ مبینہ طور پر حملے کے بعد کا منظر دکھانے والی تصویر انٹرنیٹ پر اس کارروائی سے برسوں پہلے سے موجود ہے۔ جب ہم نے اسے کوارڈینیٹس کی مدد سے گوگل میپس پر تلاش کی تو معلوم ہوا کہ یہ جابہ میں واقع ایک عمارت کی تصویر ہے جو کہ ممکنہ طور پر لڑکیوں کا ایک ہائر سکینڈری سکول ہے۔تاہم انڈین فضائیہ کی کارروائی کے بعد انڈیا سے تعلق رکھنے والے کچھ انٹرنیٹ صارفین نے اس عمارت کو ایک نیا نام دینے کی کوشش کی اور اسے جیش کا مدرسہ اور تربیتی سکول قرار دے دیا۔کچھ انٹرنیٹ صارفین نے لڑکیوں کے سکول کی عمارت کو ایک نیا نام دینے کی کوشش کی اور اسے جیش کا مدرسہ اور تربیتی سکول قرار دے دیا۔ گریراج سنگھ کی ٹویٹ میں موجود ویڈیو میں ٹی وی چینل نے دعویٰ کیا کہ سیٹلائٹ تصاویر حملے سے تین دن قبل اور حملے کے بعد کی ہیں۔ ویڈیو میں شیئر کیے گئے کوارڈینیٹس کی مدد سے ہم یہ جاننے میں کامیاب ہوئے کہ یہ تصویر ’زوم ارتھ‘ نامی ویب سائٹ سے لی گئی ہے جو کہ ناسا اور مائیکروسافٹ بنگ میپس کی مدد سے نقشہ جات کے سیٹیلائٹ امیج دکھاتی ہے۔اس ویب سائٹ کے بانی پال نائیو ہیں جو لندن میں قیام پذیر ہیں۔ ان تصاویر کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی مذکورہ تصویر بہت پرانی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’صرف ناسا روزانہ کی بنیاد پر نئی تصاویر اپ ڈیٹ کرتا ہے۔ بنگ میپس کی تصاویر روزانہ اپ ڈیٹ نہیں کی جاتیں۔‘وائرل ہونے والی تصویر کتنی پرانی ہے، اس سوال پر پال کا کہنا تھا کہ ’میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ چند دن یا مہینوں کی بات نہیں یہ برسوں پرانی تصویر ہے۔ میرے خیال میں سیٹیلائٹ تصویر میں دکھائی دینے والی عمارت زیرِ تعمیر تھی۔‘پال نائیو نے اس بارے میں ٹوئٹر پر بھی پیغام جاری کیا ہے کہ ان تصاویر کا فضائی کارروائی سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ٹی وی چینل کا دعویٰ ہے کہ یہ تصویر 23 فروری کو لی گئی لیکن اس دعوے پر سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر یہ تصویر 23 فروری ہے کی تو اس کے بعد گوگل میپس پر اس عمارت کی حالت کیوں نہیں بدلی۔ یہ وہ حقائق ہیں جن سے گریراج سنگھ اور ٹی وی چینل کے دعوؤں پر وہ سوال کھڑے ہوتے ہیں جن کا جواب اب تک سامنے نہیں آیا۔
فیس بک کمینٹ