مسئلہ کشمیر کو قومی و بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے پاکستان کی پارلیمانی سپیشل کمیٹی جسے کشمیر کمیٹی کا نام دیا جاتا ہے کی چیئر مینی سید فخر امام کے حصے میں آئی ، حکومت کا یہ فیصلہ ہر سطح پر سراہا گیا کہ کشمیر کمیٹی جسے مولانا فضل الرحمن کی چیئر مینی نے عالمی افق پر بہت پیچھے دھکیل دیا تھا اب جادو کی طرح سر چڑھ کر بولے گی ۔سید فخر امام انگلیوں پر گنے جانے والی چند شخصیات میں سے ایک ہیں جن کی ذہانت اور شرافت کا اعتراف ان کے سیاسی مخالفین بھی کرتے ہیں ۔ سیاست میں موروثیت اپنی جگہ ایک الزام ہے مگر فخر امام کے بعد سیدہ صغری امام نے سینیٹر شپ سے صرف اس لئے استعفی دے دیا تھا کہ جب عملاً کوئی کردار نہ ہو تو کرسی پر براجمان رہنا ایوان بالا کے تقدس کے خلاف ہے۔ایسی وراثت صرف سید فخر امام ہی چھوڑ سکتے ہیں ورنہ اخلاقاً وزارتوں سے مستعفی ہوجانا تو تیسری دنیا کی بانجھ جمہوریت میں لکھا ہی نہیں ہے۔
ہندوستان کے قبضے میں 1947سے رہنے والا علاقہ جسے ہم کشمیر کہتے ہیں ،ہمارے لیے تو ہمارا ہی تھا مگر اب دنیا نے بھی دیکھ لیا ہے کہ کشمیریوں کی مرضی کس کے ساتھ ہے ۔ تقسیم کے وقت کچھ کشمیری لیڈرز نے متنازعہ رہ جانے والا علاقہ بزور قوت قبضہ سے واگزار بھی کرالیا تھا مگر بھارت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے سلامتی کونسل میں سیز فائر کی اپیل کردی اور ثالثی کے وعدے پر سیز فائر ہوبھی گیا اور پھر اب وہ وعدے اور کشمیر کمیٹیوں کے نام پر کروڑوں کے فنڈز صرف اخباری بیانات تک ہی محدود رہے۔
نوابزادہ نصراللہ جیسے مدبر سیاستدان کو جب کشمیر کمیٹی کا چیئر مین بنایا گیا تو تب بھی یہی لگتا تھا کہ شاید اب عالمی سطح پر کشمیر کشمیر گونجے گا مگر نوابزادہ نے بھی کشمیر کمیٹی کو جمہوریت کی غلام گردشوں میں گم کردیا کہ وہ ایک مکمل نوابزادہ تھے جبکہ مسئلہ کشمیر کی بات کرنے کے لئے ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو گفتگو پر یقین رکھتا ہو ۔ مجھے نوابزادہ نصراللہ خان سے قربت کا شرف رہا وہ صرف حکم دیتے تھے ، اپنے مخاطب کی بات یا دلیل سننا ان کی نوابیت کی توہین تھی ۔
مولانا فضل الرحمن کے پاس حل کرنے کے لئے اپنے مدرسوں کے بہت سارے مالی مسائل تھے وہ بھی کشمیر کمیٹی کو وقت نہ دے سکے اس لئے کشمیر پر گہری نظر رکھے ہوئے عام لوگوں کو یہ کمیٹی بھی دوسری کمیٹیوں کی طرح بے کار اور فضول لگنے لگی ۔ اب ایک ایسے سیاستدان کو اس کمیٹی کی چیئر مینی سونپی گئی ہے جو تجربہ اور ریاضت کی صرف آپ ہی اپنی مثال ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر سید فخر امام کو سنا جاتا ہے اور وہ بات سمجھانے کا گر بھی جانتے ہیں۔ اگر پاکستان کی فیصلہ کن قوتوں نے انہیں کام کرنے دیا تو وہ کشمیر کا مقدمہ ہر سطح پر لڑیں گے کہ بین الاقوامی قوانین اب پہلے سے زیادہ موثر اور قابل عمل ہیں ۔ دنیا کے ایک کونے پر ہونے والا واویلا دوسرے کونے پر سنا جاسکتا ہے تو پھر فخر امام کی آواز تو دنیا کے نمبر داروں کے لئے بھی نئی نہیں ہے ۔ سیاسی دشمن جو بال کی کھال اتارتے دیر نہیں لگاتے وہ بھی سید فخر امام پر تنقید کرتے وقت صرف یہی ”الزام“ سند تعریف بنا کر پیش کرتے ہیں کہ ”شاہ صاحب کو ہمارے نام یاد نہیں رہتے “۔
”شاہ صاحب تھانوں میں جا کر مقدمات درج نہیں کراتے “
”شاہ صاحب کو علاقائی سیاست کرنی نہیں آتی “
سیاسی جوہڑوں کے یونین کونسل سطح کے ان مینڈکوں کو کون سمجھائے کہ قانون سازی سے ذہن سازی تک بڑے لیڈر کا کام ہوتا ہے۔ ڈومیسائل سے لے کر برتھ سرٹیفیکیٹ کی معاون کاری کے لئے نوکروں کے بھی چاکر موجود ہوتے ہیں جن پر وطن عزیز کے مرکزی عہدوں پر رہنے کے باوجود کوئی انگلی نہ اٹھ سکے وہ یقینا دشمنوں کے لئے بھی داد کے مستحق ہیں ۔
ہم مطمئن ہیں کہ ہمارا ووٹ رائیگاں نہیں جاتا اور اب پاکستان کی آواز جب عالمی ایوانوں تک کشمیر کا مقدمہ لڑے گی تو ان آوازوں میں ایک آواز ہماری بھی ہوگی ۔ ایک تو انا اور ایماندار شخص کی آواز۔۔۔۔۔۔۔
انسانی حقوق کے نام پر اربوں ڈالر خرچ کرنے والے کشمیر میں انہی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر آنکھیں کیوں بند کئے ہوئے ہیں؟ والدین کی مرضی کے خلاف نکاح کرنے والی بالغ لڑکی صرف حق خود ارادیت کی بناءپر پورے قبیلے کو چھوڑ جاتی ہے اور قانون اس کی مدد بھی کرتا ہے تو پھر کشمیریوں کی مرضی اور حق خود ارادیت کیوں تسلیم نہیں کی جاتی؟ کشمیر کمیٹی کے نام پر ہر سال بارہ کروڑ کے فنڈز کہاں خرچ ہوتے ہیں؟
ایک بے اعتبار ہوتی ہوئی کشمیر کمیٹی پر پہلی بار اعتبار سا آنے لگا ہے کہ اب کی بار جس شخص کو چیئر مینی ملی ہے اسے کام کرنے دیا گیا تو پھر نتائج سامنے آئیں گے اور اگر کام نہ کرنے دیا گیا تو پھر وہ مستعفیٰ ہوجائےںگے کہ عہدوں سے چمٹ جانا انہیں ہرگز نہیں آتا۔
سید فحر امام ، ہم آپ کے لئے دعاگو ہیں کہ آپ کے حصے میں ایک بڑا کام آیا ہے اور بڑے کام آپ کو تو آتے ہی ہیں۔
فیس بک کمینٹ