خضدار :صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدار کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے گرفتارکی گئی چار بلوچ خواتین کو جیل بھیج دیا ہے۔ پولیس نے ان خواتین پر مبینہ طور پر کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی کی سہولت کاری کا الزام عائد کیا ہے اور ان کا تعلق بلوچ لبریشن فرنٹ سے ظاہر کیا تھا۔
گذشتہ روز جاری ہونے والی ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق آواران کے مقامی افراد کی شکایات اور نشاندہی پر پولیس اور لیویز نے مشترکہ کارروائی کر کے ان خواتین کو گرفتار کیا ہے۔ گرفتار خواتین سے دستی بم، تین پستول اور گولیاں برآمد کرنے کا دعوی کیا گیا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ان خواتین کو کہاں سے اور کیسے حراست میں لیا گیا ہے۔ لیویز حکام نے گرفتار خواتین کی شناخت کی تفصیلات بھی جاری نہیں کی ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آواران کے محکمہ انسدادِ دہشت گردی نے پیر کو ان خواتین کو خصوصی عدالت میں پیش کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ چونکہ اُن کے پاس خواتین کے لیے مختص تھانہ یا لاک اپ نہیں، اس لیے خواتین کو جیل میں ہی رکھا جائے تاکہ پولیس ان سے تفتیش مکمل کر سکے۔
عدالت نے یہ درخواست قبول کرتے ہوئے خواتین کو خضدار جیل بھیج دیا ہے۔ دوسری جانب بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزنشن کا دعویٰ ہے ان خواتین کو ان کے گھروں سے حراست میں لیا گیا اور 24 گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد انھیں لیویز کے حوالے کیا گیا۔
تنظیم کی چیئرپرسن بی بی گل نے کوئٹہ میں ہفتہ کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقے آواران کے علاقے ماشی سے سکیورٹی فورسز نے چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے ایک خاتون کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کر دیا، اسی طرح ایک بزرگ خاتون کو بھی حراست میں لے کر لاپتہ کر دیا جبکہ اس سے قبل ان کے بیٹوں کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
بی بی گل کا کہنا تھا کہ سنیچر کی صبح سکیورٹی فورسز نے پیر اندر سے دو خواتین کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کیا۔ ان میں سے ایک خاتون کو اس سے قبل بھی گرفتار کیا گیا تھا تاہم تفتیش کے بعد چھوڑ دیا گیا۔
دریں اثنا ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ بلوچستان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حالیہ آپریشنز میں خواتین کی مبینہ اغوا کاری پر قومی کمیشن برائے انسانی حقوق اور قومی کمیشن برائے حیثیت خواتین کی مجرمانہ خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔
ڈ یموکریٹک فرنٹ بلوچستان نے جبری طور پر گمشدہ چار خواتین کی رہائی اور اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اس سے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر اور فیس بک پر ان خواتین کی مبینہ گمشدگی پر شدید تنقید کی گئی۔ تنقید کرنے والوں میں رکن قومی اسمبلی علی وزیر شامل تھے۔
یاد رہے کہ پسماندہ علاقے آوران میں سکیورٹی فورسز کا گذشتہ ایک دہائی سے آپریشن جاری ہے، یہ علاقہ کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر کا آبائی علاقہ ہے۔
اس سے قبل ان کی بیگم کو حراست میں لینے کی خبر آئی تھی تاہم سابق وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری نے بلوچ روایت کے تحت رہائی کا حکم دیا تھا۔
بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کے رکن ثنا اللہ بلوچ نے بھی ٹویٹر پر اپنے پیغام میں ان خواتین کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ پہلی بار ہے کہ گرفتار خواتین کی اسلحہ سمیت تصاویر بھی جاری کی گئی ہیں۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )