اسلام آباد : عدالت عظمیٰ نے پاناما کیس سے پہلے بھی بہت سے اہم فیصلے دیئے جنہوں نے ملکی تاریخ پرگہرے اثرات مرتب کیے۔ ان میں سے بعض فیصلوں کو سراہا گیا اور بعض کڑی تنقید کانشانہ بنے۔ملک میں آئین اور جمہوریت کی تاریخ سپریم کورٹ کے بہت سے فیصلوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ پاناما کیس کی طرح ان تمام فیصلوں پر بھی بحث مباحثے ہوئے اوران فیصلوں کاانتظار بھی اسی طرح کیا گیا جیسے پاناما کیس کاکیا جا رہاہے۔تاہم ان میں بعض فیصلے ایسے تھے کہ جو اچانک سامنے آئے اور انہوں نے سب کو حیران کردیا۔اس سلسلے کاپہلا فیصلہ مولوی تمیزالدین کیس کا تھا جنہوں نے 1953ء میں گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے حکومت کی برطرفی کو چیلنج کیاتھا اورسپریم کورٹ نے اس مقدمے میں پہلی بارنظریہ ضرورت کا قانون متعارف کرایا۔ ایک اوراہم مقدمہ عاصمہ جیلانی کیس کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں عاصمہ جیلانی نے 1971ء میں پنجاب حکومت کی جانب سے اپنے والد غلام جیلانی کی غیرقانونی حراست کوچیلنج کیا تھا۔ 10نومبر1977ء کو سپریم کورٹ نے نصرت بھٹو کیس میں نظریہ ضرورت کے تحت جنرل ضیاء الحق کی جانب سے مارشل لاء کے نفاذ کو درست قراردیا تھا۔6 فروری 1979ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بنچ نے مقدمہ قتل میں سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو دی جانے والی سزائے موت برقرار رکھی اور ان کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیل مسترد کردی۔ 1988ء میں حاجی سیف اللہ کیس میں عدالت عظمیٰ نے جنرل ضیاء الحق کی جانب سے محمد خان جونیجو کی حکومت کی برطرفی کو غیرقانونی قراردے دیا تھا تاہم قومی اسمبلی کوبحال کرنے سے انکار کردیا۔ یہ فیصلہ ضیاء الحق کی موت کے بعد سنایاگیا ۔6 اگست 1990ء کو صدرغلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت برطرف کی لیکن احمد طارق رحیم کیس میں عدالت عظمیٰ نے اس فیصلے کو درست قراردے دیا۔ 3 نومبر 2007ء کو جنرل پرویز مشرف کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا۔ 24 نومبر 2007ء کو عدالت عظمیٰ نے پی سی او کو جائز قراردیا ۔اس پی سی او میں ایمرجنسی کے نفاذ کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔26 اپریل 2012ء کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے الزام میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کوسزا سنائی جس کے نتیجے میں ان کی حکومت ختم ہوگئی۔
فیس بک کمینٹ