سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ہفتہ کے روز اسلام آباد ایئر پورٹ پر اوسلو اور کوپن ہگن آنے والی فلائیٹ پر روانہ ہونے والی ماں بیٹی پر ایف آئی اے کی ایک خاتون افسر کے تشدد کا نوٹس لیتے ہوئے تین روز کے اندر متعلقہ حکام کو اس حوالے سے ساری دستاویزات اور معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس کا یہ حکم سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کے بعد سامنے آیا ہے جس میں ایک خاتون پولیس افسر کو دو خواتین پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کی چیخ و پکار کے باوجود ڈیوٹی پر موجود کسی پولیس افسر یا دیگر لوگوں نے مداخلت کرنے اور متعلقہ افسر کو اپنے غیر قانونی اور شرمناک فعل سے باز رہنے کی کوشش نہیں کی۔ دونوں ماں بیٹی کو پرواز پر چڑھنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی ۔ ان دونوں کو تھانے لے جا کر ہراساں کیا گیا اور ان کے خلاف کار سرکار میں مداخلت اور پولیس پر حملہ کرنے کے الزام میں مقدمہ بھی درج کرلیا گیا تھا۔
تاہم ایک روز قبل اس واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آنے کے بعد اس واقعہ میں ملوث ایف آئی اے کی خاتون افسر کو معطل کردیا گیا ہے۔ اس کا نام غزالہ بتایا گیا ہے اور وہ ایک جونیئر کانسٹیبل بتائی جاتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ پولیس میں کم ترین رینک پر فائز ایک خاتون ملکی دارالحکومت کے بین الاقوامی ایئرپورٹ پر مسافروں پر تشدد اور زیادتی کی مرتکب ہوئی لیکن متعلقہ افسروں کو سوشل میڈیا پر واقعہ کی تشہیر سے قبل اس اہلکار کے خلاف کارروائی کرنے کا خیال نہیں آیا۔ ایف آئی کے اہلکاروں نے نہ صرف ان خواتین کو سفر پر روانہ نہیں ہونے دیا بلکہ انہیں حراست میں لے کر تھانے پہنچایا گیا جہاں انہیں اور ان کے لواحقین کو ہراساں کیا جاتا رہا۔ واقعہ میں ملوث ماں کی حالت بگڑنے کے بعد انہیں ہسپتال جانے کی اجازت دی گئی۔ اگر اس شرمناک اور افسوسناک واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے نہ آتی تو پولیس اور ایف آئی اے نہ صرف یہ معاملہ دبانے میں کامیاب رہتی بلکہ متاثرہ خاندان کو گلو خلاصی کے لئے بھاری رشوت بھی دینا پڑتی۔
اس واقعہ میں بیرون ملک مقیم پاکستانی خواتین پر پولیس کا تشدد اور ان کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر کا اندراج ہی تشویش کا باعث نہیں بلکہ اس میں سب سے زیادہ پریشانی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جب ایک پولیس اہلکار دو خواتین پر تشدد کررہی تھی تو نہ تو موقع پر موجود ایف آئی کے دیگر اہلکاروں اور افسروں نے مداخلت کی کوشش کی بلکہ مسافر بھی اس غیر قانونی اور غیر انسانی وقوعہ کو رونما ہوتے دیکھ کر خاموشی سے گزرتے رہے اور کسی نے بھی کوئی احتجاج کرنے یا اس ظلم کو روکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ایک ویڈیو میں البتہ ایک شخص کی آواز سنی جا سکتی ہے جو ایف آئی اے کے ایک افسر سے کہہ رہا ہے کہ یہ زیادتی ہے اسے روکیں۔ وہ افسر جواب دیتا ہے کہ ’تم اس معاملہ میں بولنے والے کون ہو۔ تم جاکر اپنا کام کرو۔ جاؤ یہاں سے۔‘ اس پر وہ شخص بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ون ونڈو پر ڈیوٹی کررہا ہے اور مسافروں کی بہبود کا خیال رکھنا اس کی ذمہ داری ہے۔ لیکن موقع پر موجود افسروں نے اس کی کوئی بات نہیں سنی۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ماں چیختے چلاتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ اس کی بیٹی کو بند کرکے ماررہے ہیں۔ پھر بیٹی بھی وہاں آجاتی ہے اورایک خاتون پولیس افسر دونوں خواتین پر تشدد کا سلسلہ جاری رکھتی ہے۔ جھگڑا اس بات سے شروع ہوا جب ایک خاتون نے باتھ روم میں ٹائیلٹ پیپر نہ ہونے کی شکایت باتھ روم کے دروازے پر کھڑی پولیس افسر سے کی۔ اس پر وہ سخت ناراض ہوگئی کہ وہ پولیس کی افسر ہے کوئی بھنگن تو نہیں ہے کہ اس سے ٹائیلٹ پیپر کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس سوال جواب کے تنازعہ میں ایف آئی کی اہلکار نے مارپیٹ شروع کردی۔
یہ واقعہ ایک انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر مسافروں کے ساتھ ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں کی زیادتی کے علاوہ موقع پر موجود سب لوگوں کی بے حسی کی گواہی بھی دیتا ہے۔ اس موقع پر درجنوں لوگ آجا رہے تھے لیکن کوئی ایک بھی مشتعل خاتون افسر کی زیادتی پر آواز اٹھانے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اس سے ایک تو پاکستان میں پائی جانے والی عمومی بے حسی کا اندازہ ہوتا ہے تو اس کے ساتھ اس دہشت کا پتہ بھی چلتا ہے جو پولیس کے بارے میں پاکستان میں موجود ہے۔ پولیس کسی مشکل میں پھنسے ہوئے شخص کی مدد کرنے کی بجائے اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرتی ہے اور اعتراض کرنے والے کو بھی اس معاملہ میں ملوث کرکے پرشان اور ہراساں کرتی ہے۔ اس واقعہ میں ایک خاتون پولیس افسر کی طرف سے ہونے والی زیادتی اس معاملہ کو مزید سنگین بناتی ہے۔ عام طور سے خواتین کو معاشرے میں سافٹ امیج کی نمائیندہ سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستانی پولیس میں شامل ہونے کے بعد خواتین بھی جبر اور زیادتی کا روائیتی رویہ اختیار کرلیتی ہیں۔ لوگوں کی بے حسی کا ایک واقعہ گزشتہ دنوں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ مشعل خان پر طالب علموں کے ایک گروہ نے حملہ کیا اور تشدد کرکے اسے ہلاک کردیا۔ اس موقع پر موجود سینکڑوں دوسرے طالب علموں نے اس ظلم کو روکنے کی کوشش کرنے کی بجائے خاموش تماشائی بنے رہنے اور تصویریں اور ویڈیو بنانا ہی کافی سمجھا۔ اسی بے حسی اور لاتعلقی کی وجہ سے ایک نوجوان طالب علم اپنی جان سے گیا۔ ایسے میں یہ سوال فطری ہے کہ کیا بطور معاشرہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو چکے ہیں اور کیا بطور قوم ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ کوئی ظلم ہمارا ضمیر جھنجوڑنے کے لئے کافی نہیں ہوتا۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ