اس نے پانچ بچوں کے بعد اپنی بیوی کو چھوڑ دیا تھا۔ وجہ کیا تھی وہی جو ہمارے ہاں مردوں کی شان سمجھی جاتی ہے نئی شادی۔بھئی اللہ نے مرد کو چار شادیوں کی اجازت دے رکھی ہے ،وہ اکثر یہی کہتا۔ اور بچوں کا کیا ہے بچے تو پل جاتے ہیں وہ سوچتا۔پھر اس نے یہی کیا کہ بیوی کو طلاق دے کر میکے بھجوا دیا اور اسے یہ بھی کہا کہ بچے بھی لے جا۔ مگر اکیلی عورت پانچ بچوں کے ساتھ کہاں جاتی۔فقیراں میکے پہنچی تو وہاں سب نے لعن طعن شروع کی۔ ’ارے عورت کو ہی قربانی دینی پڑتی ہے۔تو گھر جا۔ بس منہ بند رکھنا جو وہ کہے کرنا بچے جو پالنے ہیں۔‘ہائے اماں طلاق کے بعد کیسے رہوں،وہ کہتی۔جیسے رہتے ہیں،جواب آتا۔دیکھ بچے اس کے ہیں اسی کو پالنے چاہئے۔‘ٹھیک ہے اماں جاتی ہوں۔وہ ایک دو بار واپس آئی مگر سسرال والوں نے جوتیاں مار کر پھر واپس بھیج دی۔جیدا اس میں سب سے آگے تھا۔اب کیا کرتی الٹے پاؤں دوڑی ۔مگر کوئی جگہ جیسے تھی ہی نہیں اس کے لیے۔ ’دیکھ فقیراں بچے پالنا کوئی سوکھا (آسان) کام نہیں ہے۔ہم کیسے سنبھالیں۔تجھے تو چل رکھ سکتے۔ ہماری بیٹی ہے۔یہ ہمارے نہیں۔مرتی کیا نہ کرتی مجبوراً بچے جیدے کو بھجوانے پڑے ۔’ماں! کیا ہم قانون کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکتے یا خود کہیں رہ لیں الگ۔۔۔ہم کام کر لیتے ہیں۔بڑی بیٹی ماں کو روتا دیکھتی تو گلے میں بازو ڈال کر کہتی۔’قانون،کب ہمارا ساتھ دے گا بچی۔تیرے ابا کو بہت جان پہچان ہے۔اور ویسے بھی قانون پیسے پیتا۔ ہم کہاں سے لائیں پیسہ؟اور بدنامی الگ۔لوگ چھوڑیں گے کیا۔پکے دشمن بن جائیں گے۔‘تو دفعہ کر ماں سب کو۔ہم کہیں دور چلتے ہیں اور کام کر کے بچے پال لیں گے میں بھی دس پڑھ گئی ہوں کوئی نہ کوئی چھوٹی موٹی نوکری مجھے مل ہی جائے گی۔یہ کیسی باتیں کر رہی ہے لڑکی۔لوگ کیا کہیں گے کہ عورت بھاگ گئی۔الگ رہ رہی ہے ضرور کوئی بات ہے۔‘ارے ماں کیوں سوچیں گے۔۔۔۔ایسا نہیں ہو گا۔ہم کوئی غلط کام تو نہیں کر رہے۔عزت سے الگ ہونا چاہتے۔‘ نہ نہ معاشرہ میرا اور میرے گھر والوں کا جینا حرام کر دے گا اور سب سے آگے ہو گا میرا شوہر اور سسرال والے۔’کیوں ماں،کیا وہ تجھے نہیں جانتے؟ ’اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔لوگ صرف اپنا مطلب جانتے ہیں۔‘ ماں ٹھنڈی آہ بھر کر کہا کرتی۔خیر وہ دن بڑا اذیت ناک تھا جب ماں نے دل پر پتھر رکھ کر اپنے سسکتے،روتے بچے چھوڑے۔۔۔‘
ادھر ماں کا کلیجہ کٹا جاتا تھا اور دوسری جانب بچوں کا۔نہ ماں کے ساتھ جا سکتے تھے نہ رہ سکتے تھے۔اور لوگ تھے کہ ہمدری جتائے جاتے ایسے کہ وہ بھی چبھ جاتی تھی، ’ہائے۔۔۔۔کتنے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گئی۔۔۔ہائے بڑا ترس آتا کیسی ماں ہے۔بچوں کے لیے رک جاتی۔بچوں کا سوچنا چاہئے تھا۔مرد کا کیا ہے مرد تو ہوتے ہی ایسے ہیں۔‘
بڑا افسوس ہوتا لوگوں کی سن کر۔جیدے کو کوئی کچھ نہ کہتا۔الٹا اس کی ہاں میں ہاں ملائی جاتے۔۔۔کیوں نہ ملاتے، وہ کمانے کھانے والا آدمی تھا۔لوگوں کو اس کے کام پڑتے تھے۔اسے کون ناراض کر سکتا تھا۔سو وہی ہوا جیسے معاشرہ ہوا دیتا ہے۔دوسری بیوی سے بڑی شان و شوکت سے بیاہ رچایا گیا۔اس سے وعدے،قسمیں اور لکھت پڑھت ہوئی کہ اسے پہلی بیوی کے بچوں سے کوئی پریشانی نہ پیش آئے گی۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔نئی بی بی کے تو وارے نیارے ہو گئے۔اس نے اتنا بڑا گاؤں کا گھر کبھی نہ دیکھا تھا۔اوپر سے ڈھلتی عمر میں ایک نخرے اٹھانے والا مرد مل گیا تھا۔’ہاں،میرے میں کچھ بات ہے،‘شادی کے دن اس نے خود کو شیشے میں دیکھتے ہوئے سوچا۔پھر کیا تھا بی بی نے آتے ہی کہا جیدے !میں تیرے بچے نہیں سنبھالوں گی۔ان کی ماں کے پاس بھیج یا پھر انہیں خود کام سکھا اتنے چھوٹے نہیں ہیں،بڑی والی تو سولہ کی ہو رہی ہے۔
’’بچوں کا کیا ہے بی بی،گائیں بھینسیں بھی بچے دیتی ہیں، وہ بھی تو خود ہی بڑے ہو جاتے ہیں۔یہ بھی پل جائیں گے۔مگر میں انہیں نکال نہیں سکتا نا لوگ کیا کہیں گے پہلے ہی پورے محلے میں نئی شادی کی وجہ سے کوئی منہ نہیں لگاتا مجھے۔لوگ پتہ نہیں کیوں جل جاتے ہیں۔‘‘ بس بس میں نہیں جانتی بچوں سے کام کرواؤں گی۔ہمارے گھر میں رہیں گے تو کام کرنا ہو گا۔ماں تو چھوڑ گئی نا۔‘ بی بی اکثر بچوں کو طعنہ دیتی۔
ادھر بچوں کا یہ عالم تھا کہ پہلے لڑائی جھگڑوں اور پھر ماں سے بچھڑنے کے بعد وہ زندگی سے مایوس ہو بیٹھے تھے۔سب سے بڑی تھی جو مرنے کی بار بار کوشش کرتی۔کبھی بچ جاتی اور کبھی بچا لی جاتی۔ماں کے بعد وہ ہی بڑی تھی بچوں میں سو سارا نزلہ باپ اور پھر باپ کی نئی بیوی اسی پر نکالتے۔اوپر سے باپ کے گھر والے تھے وہ بھی باپ جیسے۔’تو کیا ہو گیا جو بھائی جان نے ایک اور شادی کر لی۔یہ تم لوگوں کی ماں کا قصور ہے۔اس نے کیوں اتنی کھل دی تھی۔اب تم نے چھوٹے بہن بھائی سنبھالنے ہیں نئی بہو کیسے کام کرے گی وہ تو بہت سست ہے۔اور ہاں دیکھنا وہ بھی تو ماں جیسی ہی ہے اس سے لڑائی نہ کرنا۔‘‘بچے کبھی کبھی سوچتے ان کو منہ توڑ جواب دیں مگر کیا کرتے۔جواب دیتے تو باپ کو شکایت لگائی جاتی تھی پھر باپ خود دھلائی کرتا سب کی۔’ہمیں اس کے اصل بچے ہیں نا‘ کبھی بچے رضائیوں میں دبکے ایک دوسرے سے سوال کرتے۔دوسرے نمبر کی لڑکی10کی تھی،آنکھوں سے نابینا اور تھوڑی سی توتلی۔اس نے کبھی ماں دیکھی تو نہ تھی مگر اس کو محسوس بہت کیا تھا۔ماں سے دور ہونے کے بعد وہ کڑوی سی ہو گئی۔نہ بات کرتی تھی نہ کسی کی سنتی تھی بس ایک کونے میں دبکی رہتی۔اسی طرح باقی بچوں پر بھی عجب قیامتیں ٹوٹیں۔سب سے چھوٹی جو 3سال کی تھی اس کو بچپن سے ہی بی بی کا سایہ نصیب ہوا تھا۔ماں کے ساتھ محض دو سال رہی۔پھر ایسے حالات میں ہوتا کیا ہے کہ یا تو بچے بہت زیادہ نئی ماں سے متاثر ہو جاتے یا پھر دنیا بھر کی نفرت دل میں بسا لیتے۔بچی کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔اسے بی بی سے کیا باپ،خالہ،چاچا،ماما۔۔۔ہر ایک سے نفرت ہو گئی تھی۔اس کے لئے باپ کا لفظ بھی بھاری تھا۔’’سب باپ ایسے ہی ہوتے ہیں۔جھگڑالو،خود پسند، اوراپنی بات منوانے والے۔‘‘اور ایسا اس لیے تھا کہ اس نے باپ کو ایسے ہی دیکھا تھا۔جب دل کرتا بات کرلیتا۔نہ دل کرتا تو ڈانٹ ڈپٹ،مار پیٹ حتیٰ کہ گھر سے نکلنے کی دھمکیاں دینے لگتا۔’’دیکھو یہاں رہنا ہے تو میرے طریقے سے چلو،ورنہ جاؤ۔۔۔ماں کے پاس۔۔جو تم سب کو میرے سر چھوڑ گئی۔‘‘وہ اکثر دھاڑتا کیوں کہ یہ بہت اچھا طریقہ تھا ان کو ڈرانے کا۔بچے اس کے سامنے سچ بھی نہ بول سکتے۔پھر کیا تھا بی بی ان پر ہاوی ہو گئی اور وہ دنیا سے ہی سہم گئے۔ان کی شخصیت دب گئی،چوپیس گھنٹے ناچاقی،ڈانٹ،مار پیٹ سے سب کے سب مختلف قسم کی نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے لگے۔اور جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے ان میں خوف،ڈر،اعتماد کا فقدان ،حافظے کی کمی،غصہ اور ذہنی تناؤ بڑھنے لگا۔
بڑی نے خود کشی کر لی،اس سے چھوٹی کی بینائی کے ساتھ ساتھ کان سے آواز بھی کم آنے لگی۔اس سے چھوٹی گھر سے بھاگ گئی،اور آخری دو چھوٹیوں میں سے ایک کو پاگل پن کے دورے پڑنے لگے اور ایک حالات سے سمجھوتہ کر کے مستقل ڈپریشن کا شکار ہو کے مر گئی۔
اور آخر میں نتیجہ کیا نکلا:’ماں کی غلطی تھی!‘
فیس بک کمینٹ