اسلام آباد: سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں استغاثہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے عہدیدار نے 5 ملزمان کے خلاف مقدمے کو کمزور کردیا جو ان کی بریت کا سبب بنا۔ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے گذشتہ ماہ 31 اگست کو بینظیر بھٹو قتل کیس کے 5 ملزمان کو بری کردیا (جو مبینہ طور پر کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے منسلک تھے) جبکہ دو سینئر پولیس افسران کو مجرم قرار دیا۔ان پولیس افسران میں سعود عزیز اور خرم شہزاد شامل ہیں، سعود عزیز سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے وقت راولپنڈی کے پولیس چیف تھے جبکہ خرم شہزاد راول ٹاؤن کے سابق پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) تھے۔ دونوں افسران کو مجرمانہ غفلت پر 17 سال کی قید اور 10، 10 لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی۔اپنے فیصلے میں جج کا کہنا تھا کہ ’استغاثہ خود بھی الجھن کا شکار تھا‘۔خیال رہے کہ بری ہونے والے 5 ملزمان رفاقت حسین، حسنین گل، شیر زمان، رشید اور اعتزاز شاہ کے خلاف تحقیقات 27 دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو کو قتل کرنے کی ’سازش‘ تیار کرنے کی بنیاد پر جاری تھیں۔اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کہ سابق وزیراعظم کے قتل کا منصوبہ مذکورہ ملزمان نے تیار کیا تھا، تفتیش کاروں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بیت اللہ محسود اور ایک مولوی کے درمیان ہونے والی فون کال پر انحصار کیا۔اس فون کال میں بیت اللہ محسود نے اپنے ساتھی کو بینظیر بھٹو پر کامیاب حملے کی مبارکباد دی تھی۔خیال رہے کہ یہ وہی آڈیو پیغام تھا جو نیشنل کرائسز مینیجمنٹ سیل (این سی ایم سی) کے ڈائریکٹر جنرل نے بینظیر بھٹو کے قتل کے چند گھنٹوں بعد ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کو جاری کیا تھا۔پنجاب پولیس کی پہلی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تحقیقات کا مرکز یہ فون کال تھی جبکہ تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی دوسری جے آئی ٹی، جس نے اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک کی سربراہی میں قتل کیس کی تحقیقات کیں، نے بھی اسی ٹیلی فونک گفتگو کو مرکزی ثبوت سمجھا۔تاہم یہ اہم ثبوت اُس وقت اپنی اہمیت کھو بیٹھا جب اس گفتگو میں رکاوٹ ڈالنے والے آئی ایس آئی کے آپریٹر محمد اسماعیل گواہی دینے عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔اے ٹی سی جج اصغر علی کا قتل کیس کے 46 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہنا تھا کہ استغاثہ نے قتل کو سازش کا حصہ ثابت کرنے کے لیے اس ٹیلی فونک گفتگو پر انحصار کیا۔استغاثہ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ملزمان کے اعترافی بیانات، ان کے موبائل فون کا فرانزک تجزیہ اور دیگر شہادتیں انہیں اس قتل سے جوڑنے کے لیے کافی ہیں۔
(بشکریہ: ڈان اردو)
فیس بک کمینٹ