ریاض : سعودی عرب نے سرکاری طور پر قمری کیلنڈر کو خیر باد کہہ دیا ہے اور یکم جنوری 2017ء سے سعودی عرب کے دفاتر میں شمسی کیلنڈر کے مطابق کام ہو گا ۔ اس سحوالے سے نوٹیفیکیشن بھی جاری ہو گیا ہے تاہم سعودی عرب کو اندرون ملک بھی اس حوالے سے مزاحمت کا سامنا ہے ۔
اپریل 2016ء میں سعودی نائب ولی عہد محمد بن سلمان نے جو کہ موجودہ انتظامیہ میں آزادخیال اورانتہائی فعال وزیر سمجھے جاتے ہیں سعودی عرب کے ترقیاتی پلان کااعلان کیا جسے سرکاری سطح پر ویژن 2030 ء کا نام دیا گیاہے ۔ابلاغ میں نئے وزیرکی بصیرت اورمعیشت پرسوجھ بوجھ کے حوالے سے بہت تعریفی مضامین بھی سامنے آئے ۔یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اگرمجوزہ ترقیاتی منصوبوں پر کامیابی سے عملدرآمد ہو جاتا ہے تو عالمی معیشت میں گرتی ہوئی سعودی ساکھ کوسنبھالنے میں مدد ملے گی ۔یہی نہیں تیل کی پیدوار سے سرمایہ کاری کی طرف معیشت کی منتقلی کو بھی نظریاتی تبدیلی سے ہٹ کرمعاشی ضرورت کے طور پر قبول کیا جا رہا ہے ۔تاہم ابلاغ میں کسی نے بھی اس بات پرغور نہیں کیا کہ اس پلان کو ویژن 1451ھ کی بجائے ویژن 2030ء کا نام کیوں دیا گیاہے ؟ ۔
سعودی عرب میں تمام ریاستی معاملات اور روزمرہ معمولات ہجری کیلنڈرکے تابع ہوتے ہیں اور اس کا اثر تمام عالم اسلام پربراہ راست ہوتا ہے ۔یہی نہیں پاکستان اور دیگر نظریاتی ریاستیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے چاند کا ظہور طے کرنے کی بجائے سعودی حکومت کے اعلان کی منتظر رہتی ہیں اور ان ممالک میں ہر سال عیدین اور دیگر اسلامی تہوار تنازعات کا شکار ہوتے ہیں ۔
اس بات کاتذکرہ بھی ضروری ہے کہ جب بھی سعودی ریاست میں کاروباری معاملات کو گرے گورین یعنی عیسوی کیلنڈر سے ہم آہنگ کرنے کی تجویز پیش کی گئی تو صرف اس وجہ سے رد کیا گیا کہ سعودی عرب ظہورِ اسلام کی علامت ہے اس لئے اگر ایسا کیا گیا تو براہ راست ماہ رمضان کی مذہبی اہمیت متاثر ہونے کاخدشہ ہے ۔
ریاستی سطح پر ویژن 2030ء کا نام رکھنے کی سب سے بڑی وجہ عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ اورامداد کا معاہدہ ہے جسے سعودی حکومت کی گرتی ہوئی معیشت کی بحالی کیلئے کلیدی حیثیت حاصل ہے۔یاد رہے کہ ورلڈبینک اورآئی ایم ایف سے حاصل کی گئی مالی معاونت کی قسطوں کی ادائیگی کیلنڈرکی مقررہ تاریخوں سے مشروط ہوتی ہے ۔جبکہ عیسوی سال اورہجری سال میں گیارہ دنوں کافرق ہوتا ہے جس کی وجہ سے سعودی حکومت کو 33سال میں قابل واپسی اقساط 32 سال میں واپسی دینا پڑیں گی اور اگر قرضوں کے حجم کا تعین بلین ڈالرز سے کیا جائے تو ایک گرتی ہوئی معیشت کے لئے اتنی بڑی رقم کی واپسی میں تاخیر کیلئے ہجری کیلنڈرسے عیسوی کیلنڈر پر منتقلی ایک انتہائی دانشمندانہ اورمنافع کا سوداہے ۔
حال ہی میں ایک سرکاری اعلامیئے کے ذریعے سعودی حکومت نے قمری سال سے شمسی سال پرتبدیلی کا باقاعدہ اعلان کر دیاہے ۔
سرکاری سطح پریہ خدشات بہرحال موجودہیں کہ انتہائی مضبوط نظریاتی بنیادوں پرقائم سعودی معاشرے کاردعمل شاہی خاندان کے لئے کوئی نیک شگون نہ ہوگا اور یہ خدشات اس وقت درست ثابت ہوئے جب سرکاری اعلامیے کے باوجود سعودی عدالتیں سائلین کو مختلف کیسوں کی سماعت کے لئے قمری کیلنڈرکی تاریخوں پربلانے پرمصر ہیں ۔یہی نہیں ویژن 2030ء میں سعودی عرب کی عدلیہ کی مراعات میں بھی واضح کمی کی گئی ہے اورشاید یہی موقع ہے کہ سرکاری اشرافیہ شاہی خاندان کی اصلاحات پر نظریاتی اختلاف کرنے میں حق بجانب نظر آتی ہیں ۔
کیا شاہی خاندان کے اخراجات پر قدغن لگائے بغیر سعودی معیشت کے روح رواں محمد بن سلمان سرکاری مشینری سے اپنے منصوبوں پرعمل درآمدکرنے میں کامیاب ہوسکیں گے ؟ یہ طے کرنا ابھی باقی ہے مگر کل کا سورج جب حجاز مقدس میں طلوع ہو گا تو سعودی ریاست کے کلرک پہلی مرتبہ سرکاری مکتوب پریکم جنوری 2017ء کی تاریخ تحریر کریں گے ۔شاید یہ تاریخ سعودی عوام کے لئے تو قابل قبول ہو مگر نوکرشاہی خصوصاََ محکمہ انصاف سے وابستہ قاضی سعودی عرب کے اسلامی اورنظریاتی تشخص کے تحفظ کی ذمہ داریاں ضرورنبھائیں گے کیونکہ یہ ان کے فرائض میں شامل ہے
(رضی الدین رضی)
فیس بک کمینٹ