خوشیوں ، خواہشوں ، محبتوں اور خوابوں کی تعبیر کے حصول کی امید ہی دراصل نئے سال کو ہمارے لئے خوشنما اور نیا بناتی ہے۔ وگرنہ نئے سال میں ایسی کوئی نئی چیز نہیں ہوتی کہ جس کی مبارک باد دی جائے۔ سال شمسی ہو یا قمری، ہفتے باون ہوں یا مہینے بارہ یہ صرف اعداد و شمار کے لئے ہیں ورنہ سورج اور چاند تو صدیوں سے اپنی ہی گردش میں مگن ہیں۔ دن اور رات کا ایک اپنا کھیل جاری ہے۔ یہ دن مہینے اور سال سب کے لئے یکساں نہیں ہوتے۔ دن بعض اوقات سالوں پر بھی محیط ہو جاتا ہے تو رات صدیوں پر بھاری ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات کئی کئی سال لمحوں میں بیت جاتے ہیں ۔ کسی کا وقت کاٹے نہیں کٹتا تو کسی کا پر لگا کر اُڑ جاتا ہے۔ موسموں کی طرح وقت کا تعلق بھی دل ہی سے ہے۔ لیکن نیا آنے والا سال ہمیں، ہماری خوشیوں اور دکھوں کو ایک سال پرانا ضرور کر دیتا ہے۔
بچپن میں ہر نئے سال کے آغاز پر صبح سویرے سب سے پہلے نئےسال کی مبارک باد دینا اور نئےسال کے ساتھ جنوری کی پہلی تاریخ لکھنا بھی بہت اچھا لگتا تھا۔ کل ہی کی بات ہے جب والد محترم نے ایک سرکاری چٹھی پر دستخط کے بعد 88-8-8 تاریخ درج کی تھی۔ہر نئےسال کے موقع پر ’’بڑے‘‘ ہونے کی خوشی ہوتی تھی۔لیکن وہ تو بچپن تھا
اب دسمبر کے آخری دنوں میں گزشتہ کئی دہائیوں سے نئے سال کی خوشیاں تو ضرور منائی جاتی ہیں ۔ مساجد میں ملک و قوم کی سلامتی و خوشحالی کی دعائیں بھی مانگی جاتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود قوم کو کئی عشروں سے خوشحالی ملی اور نہ ہی سلامتی۔یکم جنوری کو اخبارات میں سال کے آخری اور نئے سال کے پہلے سورج اور بچوں کی تصاویر شائع ہوں گی۔ چاہے یہ سورج اور بچوں کی پرانی تصاویر ہی کیوں نہ ہوں۔ نیو ائیرنائٹ پر زہریلی شراب پی کر درجنوں افراد مادر وطن پر جان نچھاور کریں گے۔ موسم بہار میں معاشی و معاشرتی مسائل میں گھری قوم خوف کے سائے میں جشن بہاراں منائے گی۔ مرجھائے بچے کھلتے گلابوں کے ساتھ تصاویر بنوائیں گے۔
ہرسال کی طرح 5 فروری کو کشمیریوں سے یکجہتی کےلیے ریلیاں نکلیں گی۔ ہاتھوں کی زنجیر بنائی جائے گی۔ صرف ایک دن کے لئے پاکستان کی شہ رگ کو دشمنوں سے جھڑانے کے عزم کا اعادہ ہو گا۔ 23 مارچ کو قرارداد پاکستان پریڈ کے ساتھ یاد کی جائے گی اور 14 اگست کو محکوم قوم کو جشن آزادی شایان شان طریقہ سے منائےجانے کے بارے میں بتایا جائے گا۔ دشمن کی جانب سے وطن عزیز کو میلی آنکھ سے نہ دیکھے جانے کی یقین دہانی کرائی جائےگی۔ 6 اور سات ستمبر کو ملک کےدفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کی خوشخبری دی جائے گی۔ شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کےساتھ ساتھ دہشت گردوں کی ایک مرتبہ پھر کمر توڑ دی جائے گی۔ یوم پیدائش پر قائداعظم اور علامہ اقبال کے مزارات پر گارڈ کی تبدیلی اور پھولوں کی چادریں چڑھائی جائیں گی۔
اسلامی مہینوں کے مطابق دربارسجیں گے،مزارات پر عرس کے میلے سجیں گے۔ بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس لوگ نذرانوں اور کرایوں کی مد میں اخراجات کر کے اپنے اور بچوں کے لئے ہر سال کی طرح فیض کی جھولیاں بھر بھر کر لےجائیں گے۔ فیوض و برکات سمیٹنے والوں کی گاڑیوں کے حادثات کی اطلاعات افسردہ کریں گی۔ سارا سال سیاستدانوں کی جمہوریت کو ، مولویوں کے اسلام کو اور محب وطن اداروں کی قومی سلامتی کو خطرہ رہے گا۔ مدارس بدستور اسلام کا قلعہ رہیں گے۔
سال نیا ہو یا پرانا وطن عزیزکے کروڑوں لوگوں کے لئے تو 30 دن گزارنے ہی مشکل ہو رہےہیں ۔
جب کچھ بھی نیا نہیں تو پھر نئےسال کی آمد پر کس بات کی خوشیاں؟؟
کیونکہ نیا سال تو قوموں کے لئےخوشحالی، خوشیوں ، خواہشوں، محبتوں اور خوابوں کی تعبیر لاتا ہے
بقول شاعر
بدلنا ہے تو دن بدلو، بدلتے کیوں ہو ہندسے کو
مہینے پھر وہی ہوں گے، سنا ہے سال بدلے گا
وہی حاکم، وہی غربت، وہی قاتل، وہی غاصب
بتاؤ کتنے برسوں میں ہمارا حال بدلے گا۔
فیس بک کمینٹ