وقت وہ تیز دھار تلوار ہے جس کا وارکبھی خالی نہیں جاتا۔یہ وہ دھاراہے جس پرآج تک کوئی بند نہیں باندھ سکا۔یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا ۔دن مہینوں اور مہینے سالوں میں بدل جاتے ہیں۔ان گنت لوگ وقت کی رتھ میں سوارآتے ہیں،چند روزقیام کرتے ہیں اورپھراسی رتھ میں سوارہوکر چلے جاتے ہیں۔ہاں مگر چند ساعتیں ہیں جن پر ہم اپنا استحقاق سمجھ کراُسی وقت سے الجھ پڑتے ہیں جس کے بارے میں مجید امجد نے کہاتھا کہ ’’وقت ہی خدا ہے‘‘۔اگرحساس شاعرکی کسی نازک موقعے پر کہی اس بات کورد بھی کردیاجائے توخدا کی قسم کو تو نہیں جھٹلایا جا سکتا۔۔۔’’قسم ہے وقت کی کہ انسان خسارے میں ہے۔‘‘
وقت اور انسان کی جنگ میں خسارہ ہمیشہ انسان کا ہی مقدر بنا اور وقت تاجوروں کے تاج اپنی پاپوش سے روندتاہواآگے نکلتارہا۔یہ وقت ہی ہے جوہمیں ایک لمحے میں خوشی دیتا ہے اور دوسرے ہی لمحے غم کے اندھے کنویں میں دھکیل دیتا ہے۔ یہی وقت ہے جس نے ہماری گود میں دوہزارسولہ کو ایک معصوم بچے کی طرح رکھ دیااور ہم نے بھی اسے دل وجان سے قبول کیا۔وقت ہی نے اس سال میں کئی نابغہ روزگارہستیاں دیں جن کا فیصلہ بھی بلا شبہ وقت ہی کرے گا،لیکن اپنی جبلت سے مجبور ہم اس بچے سے بھی الجھ پڑے۔ ہر سالِ نو پر تجدیدِ عہدکے پیمان باندھنے کے باوجودوقت اور انسان کی جنگ چھڑگئی۔
انتظارحسین ابدی انتظار سے دوچار کر کے راہ عدم سدھارے۔اب کس سے جا کر پوچھیں کہ ہوس کا کتا کب پھیلتے پھیلتے انسان سے بھی بڑا ہوجاتا ہے اورانسان کب سکڑتے سکڑتے بندر بن جاتا ہے۔بے رحم وقت نے عبدالستار ایدھی کو بھی چھین لیا۔وہ ایدھی جس نے اپنی خوشیوں کو تج کر انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ڈرامہ نگارفاطمہ ثریا بجیا گئیں۔پروڈیوسریاور حیات گئے۔گلوکارامجد صابری،اے نیئر،اداکارہ شمیم آرا،موسیقارروبن گھوش،کالم نگارسید انور قدوائی،کوہ پیماحسن سد پارہ، جاسوسی ادب کے معماراشتیاق حسین،سیاستدان جہانگیر بدر،کرکٹر حنیف محمداورامتیاز احمدبھی ہم میں نہ رہے۔
وقت کی تیز دھار تلوار کا ایک بھی وار خالی نہ گیا۔گلشن اقبال پارک میں ایسٹر کے روز بم دھماکے میں ستر لوگ جان سے گئے،سول اسپتال کوئٹہ میں انسٹھ افراد خود کش دھماکے کا شکار بنے،پولیس ٹریننگ سنٹر کوئٹہ میں دہشت گردوں کے حملے میں ساٹھ اہلکار شہیدہوئے،باچاخان یونیورسٹی میں تیس اوردرگاہ شاہ نورانی پر خود کش حملے میں سو سے زائد زائرین لقمہ اجل بنے جب کہ سوات سے اسلام آباد آتے ہوئے پی آئی اے کا طیارہ تباہ ہونے سے بے مثال گلوکارجنیدجمشیدسمیت اڑتالیس مسافروں کا سانسوں سے رشتہ ٹوٹ گیا۔
وقت نے ایک بار پھردوہزار سترہ کو معصوم بچے کی طرح ہماری گود میں رکھ دیا ہے۔اس بچے کے جنم پر ہم نے رات بھر خوشیاں منائیں، جگہ جگہ آتشبازی کے مظاہرے کیے اورکیک بھی کاٹے لیکن ایک مرتبہ پھروقت ہم سے صلح اورامن کاتقاضاکر رہاہے ۔ہم یہ تقاضاپوراکرنے کا اقرارتو کررہے ہیں مگرانکار بھرا اقرار۔۔۔یہ جانے بغیرکہ:
وقت کی تیغ چلے گی تو قیامت ہو گی
تاج ور خون میں اپنے ہی لِتھڑجائیں گے
فیس بک کمینٹ