لندن : میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی سے نوبل انعام واپس لینے کے لیے بین الاقوامی سطح پر اٹھنے والی آوازیں زور پکڑتی جا رہی ہیں اور برطانیہ میں گارڈین سمیت کئی مقتدر اخبارات نے روہنگیا مسلمانوں پر بہیمانہ ریاستی مظالم پر آنگ سان سوچی کے موقف پر مضامین شائع کیے ہیں اور سوچی کے موقف کو انتہائی مایوس کن قرار دیا ہے۔گارڈین نے ‘سوچی سے نوبل انعام واپس لے لینا چاہیے وہ اب اس کی حقدار نہیں رہیں’ کے عنوان سے مضمون شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سوچی نے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے بارے میں اس سال فروری میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ نہیں پڑھی ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کو اقوام متحدہ دنیا کی سب سے پسی ہوئی اور مظلوم اقلیت قرار دے چکا ہے لیکن سوچی یہ حقیقت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ صرف وہ میانمار کی فوج کی مذمت کرنے کو ہی تیار ہیں بلکہ ان کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو بھی جھوٹ قرار دیتی ہیں۔نوبل انعام وصول کرنے کے بعد آنگ سان سوچی نے کہا تھا کہ جب ظلم سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے تو تصادم کے بیج بوئے جاتے ہیں کیونکہ ظلم لوگوں کی تذلیل کرتا ہے، تلخی اور غصے کو جنم دیتا ہے۔اخبار کہتا ہے کہ ان روہنگیا افراد جنہوں نے فوج کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے ہیں ان کے غصے کو بہانہ بنا کر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی کارروائیوں کو تیز کر دیا گیا ہے۔آنگ سان سوچی سے نوبل انعام واپس لینے کے لیے اپنے استدلال میں مضمون نگار لکھتا ہے کہ سوچی کے دفتر نے ایک روہنگیا عورت کے ریپ کی کہانی پر اپنے رد عمل میں اسے جھوٹی کہانی قرار دیا تھا۔مضمون میں سوچی کے ایک اور قول کہ ‘طاقت نہیں بلکہ خوف کرپٹ کرتا ہے۔ جن لوگوں کے پاس طاقت ہوتی ہے انھیں طاقت چھن جانے کا خوف کرپٹ کر دیتا ہے’ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مضمون نگار کے بقول سوچی اپنی مقبولیت میں کمی کے خوف سے خاموش ہیں یا فوجی حکومت کی طرفداری کر رہی ہیں۔ سوچی یا تو اپنی عصبیت یا پھر خوف کی وجہ سے ان لوگوں کو وہ حق دینے کو تیار نہیں جس کے لیے وہ خود جدوجہد کرتی رہی ہیں۔برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ نے سوچی کی ایک مداح اور مصنف صوفیہ احمد کا مضمون شائع کیا ہے۔ انھوں نے بھی سوچی کے رویے پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے کہا ہے کہ مایوسی کے لفظ میں وہ شدت نہیں جو سوچی کے رویے پر ان کے جذبات کا اظہار کر سکے۔صوفیہ لکھتی ہیں کہ آنگ سان سوچی اکیسویں صدی میں ایک استعارہ تھیں جمہوری آزادیوں اور انصاف کا لیکن ان کی خاموشی سے لگتا ہے وہ یہ حقوق صرف اپنے لیے چاہتی تھیں روہنگیا کے لیے نہیں جنھیں وہ ‘دوسرے’ سمجھتی ہیں۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ