موسم کے لحاظ سے نیو جرسی ، نیو یارک اور ڈسٹرکٹ کولمبیا کا نواحی علاقہ جولائی کے مہینے میں کم وبیش اپنے اسلام آباد کی طرح ہو جاتا ہے۔ دھوپ میں سلگتی ہوئی تلخی آمیز تمازت اور چپکے سے بار بار ہو جانے والی بارش دن بھر عجیب سا رنگ جمائے رہتی ہیں۔یوں جہاں درجہ حرارت اوسطاً 25 سنٹی گریڈ سے اوپر نہیں جاپاتا وہاں چمکدار آسمان کی خیرہ کن نیلاہٹ بھی گاہ بے گاہ بادلوں کا نقاب کئے رہتی ہے کسی ایسی حسینہ کی طرح جو اپنے حسن کے جلووں کی تابناکی اور مضمرات کا بخوبی ادارک رکھتی ہو۔لہذا گھر سے باہر نکلنے والے چاہے پیدل ہوں یا سوار ، رنگ برنگی چھتریوں کو اپنی دسترس میں رکھتے ہیں کہ نہ جانے کب دھوپ کی اوٹ سے بادل امڈیں اور فلک سے گنگناتی ہوئی بوندیں زمیں پر جلترنگ بجانا شروع کر دیں۔ 14جولائی 2017ء کے دن کے لیے بھی بارش کی پیشگوئی تھی مگر شام کے لگ بھگ لہذا فریڈرکس برگ کے لوگوں کے لیے دن اچھا بھلا گرم ہو چلا تھا۔ مگر ملتانی اِس اچھی بھلی’’سردی‘‘ کو کہاں خاطر میں لانے والے تھے۔اس لیے ظہور ندیم پہلے پہر کے گیارہ بجے کی بجائے بارہ بجے گھر پہنچے، مجھے ساتھ لیا اور اپنے’’ سیون الیون‘‘ اور گیس فلنگ اسٹیشن کا نظارہ کراتے ہوئے واشنگٹن جانے والی اُس شاہراہ پر ہو لیے کہ جو تیزرفتارٹریفک کے لیے بنائی گئی تھی۔ ’’سیون الیون‘‘ کے کاؤنٹر کو بھابھی نجمہ اور باقی معاملات کو اُن کے منیجر رابرٹ نے سنبھال رکھا تھا۔بھابھی صاحبہ جس اعتماداور احساسِ ملکیت کے ساتھ کاؤنٹر کے امور نمٹا رہی تھیں اِس سارے منظر نامے میں ظہور ندیم مجھے کسی ایسے کرایہ دار کی طرح دکھائی دیے کہ جو محض اپنے حقوقِ کرایہ داری پر شاداں و فرحاں ہوتا ہے۔ لہذا ہر طرح سے مسرور و مطمئن ظہور ندیم نے گاڑی کو شاہراہ پر لاتے ہی ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ لطیفوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا تاکہ واشنگٹن ڈی سی کم از کم نفسیاتی طور پر تو قریب ہو جائے۔
اس سے پہلے کہ ہم اسپرنگ فیلڈ ٹ سے’’ باہرو باہری‘‘ گزرجا تے ظہور ندیم کوایک ایسی فون کال موصول ہوئی کہ جس نے گاڑی کے پہیے شاہراہ کے اُس’’ مخرج‘‘ کی طرف مڑوا دیے کہ جو اسپرنگ فیلڈ ٹاؤن کی طرف جانے والوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ گو کہ ہم واشنگٹن کے لیے بنائے گئے شیڈول کے اعتبار سے پہلے ہی خاصے لیٹ ہو چکے تھے مگر اِس ’’سائیڈ ٹرن‘‘ کا سبب اُن صاحب کے بلانے کا انداز تھا کہ نہ ظہور ندیم انکار کر سکے اور نہ ہی اُن کے کرائے گئے تعارف اور تعارف میں پوشیدہ خلوص کے سبب، میں۔اسپرنگ فیلڈ آبادی اور وسعت کے لحاظ سے اگرچہ ایک قصبہ ہے مگر اپنی خوبصورتی اور واشنگٹن کا مضافات ہونے کے سبب ایک ایسی دلکشی کا باعث ہو چکا ہے کہ جو پاکستانیوں کے علاوہ دیگر ایشائی تارکینِ وطن کی ایک کثیر تعداد کو یہاں آباد کئے ہوئے ہے۔خوبصورت گھر، دھلی دھلی سے شاہراہیں ، لکڑی کے کھمبے اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہریالی اسپرنگ فیلڈ کی پہچان ہیں ۔ یہاں سڑکوں پر ٹریفک’’ نفسا نفسی‘‘ کے لیے نہیں بلکہ ایک دوسرے کے’’ احترام‘‘ میں دھیرے دھیرے بہتی رہتی ہے۔لہذا زمین پر پھیلی ہوئی ہریالی اور ’’اصلی‘‘ نیلے آسمان کی ’’نیلتا‘‘ کو آنکھوں میں لپیٹتے ہوئے چند لمحوں کے بعد ایک دومنزلہ عمارت کی وسیع پارکنگ میں موجود تھے۔اِس عمارت کی دوسری منزل پر جاتے ہوئے لفٹ نہ ہونے کا احساس اِس لیے نہ ہوا کہ ہماری عمارتوں کے برعکس امریکہ میں سیڑھیاں بناتے ہوئے ’’گِٹے گوڈوں‘‘ کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے کہ اُن پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑنے پائے۔
سعادت علی رانا کا دفتر اِس خوبصورت عمارت میں مزید خوبصورتی کا سبب کچھ یوں بھی ہے کہ یہ ایک مکمل گھر بھی ہے اور دفتر بھی کہ جس میں فرنیچر سے لے کر خود رانا صاحب تک ، نہایت نفاست اور قرینے سے اپنی اپنی جگہ رکھ دیے گئے ہیں۔اسپرنگ فیلڈ میں پراپرٹی بزنس کا ایک اہم حوالہ سعادت علی رانا ہاتھ ملانے کے اندازاور فقرہ چست کرنے کے اسٹائل سے اپنے مہمان کو ملاقات کی اولیں ساعتوں میں اپنا گرویدہ بنا لینے کی ہنرمندی میں تگڑاہاتھ رکھتے ہیں کہ جس میں اُن کی گرم�ئ انداز تہذیبی ’’گرم جوشی‘‘کی تفہیم بن کر سامنے آتی ہے۔اگر ابراہیم ذوق اِن سے مل لیتے تو شاید یہ مصرع نہ کہہ پاتے کہ ’’اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر ‘‘کیونکہ رانا صاحب نہ تو تکلف کے روادار ہیں اور نہ ہی تکلیف کے۔وہاں ہماری ملاقات ایک اور ’’رانا صاحب‘‘ ذیشان سعید سے بھی ہوئی ۔اُن کی باہمی یگانگت دیکھ کر مجھے تو یوں لگا کہ وہ پروڈکشن کے کسی ایک ہی بیچ(Batch)کی پیداوار ہیں۔ایک ساتھ سوچنا، ایک جیسا بولنا مگر اپنے اپنے لہجوں میں۔سعادت علی راناکے ہاں اگر تہذیبی رکھ رکھاؤ اور سلیقہ و سگھڑ پن لکھؤو جیسا ہے تو ذیشان سعیدکا ثقافتی سبھاؤ اور خلوص پنجاب کے جانگلی خطے کی نمائندگی کرتا ہے۔
چائے وغیرہ پینے میں تو دس پندرہ منٹ لگے ہوں گے مگر گپ شپ میں وقت اس طرح گزرا کہ اڑھائی بجنے میں صرف چند لمحے ہی صرف ہوئے۔ اس دوران ہم نے کئی بار اٹھنا چاہا مگر کچھ دیر اور کے تقاضے آخر کار اِس تنبیہہ میں آن دھمکے کہ اس قدر گر می میں کیوں خجل خوار ہونے کا ارادہ ہے۔ بیٹھیں، کھانا کھائیں،دن کو ٹھنڈا ہونے دیں ، چار بجے چلے جائیے گا۔یہ سب کچھ اِس قدر تواتر اور اتنے خلوص سے کہا گیا کہ ہم نے واشنگٹن ڈی سی کی سیاحت کو جھونکا بھاڑ میں اور راناصاحب کی باتوں کے سحر میں اُس امریکہ کو تلاشنے لگے کہ جو انہیں ایک عرصہ پہلے یہاں کھینچ لایا اور پھر وہ پوری ’’نیک نیتی‘‘کے ساتھ اُسی کے ہو کر رہ گئے۔گوکہ ابھی وہ خود جوان ہیں، خوش پوشی اور خوش خوراکی کے ہنر سے بھی آشنا مگر گھریلوذمہ داریوں سے بروقت فراغت کے سبب حلقۂ یاراں کی رونق بنے ہوئے ہیں جو کہ سیاسی بھی ہے اور غیر سیاسی بھی۔اِس دوران نجانے کب ذیشان صاحب چپکے سے باہر کھسکے اور جب چار بجے کے لگ بھگ اُن کی واپسی ہوئی تو ایک لذیذ کھانے کے تمام تر لوازمات سے ’’لیس ‘‘ تھے۔راناصاحب کے دفتر سے دوبارہ شاہراہِ واشنگٹن تک آتے آتے اگرچہ شام کے پانچ بج رہے تھے مگر لگتایوں تھا کہ سورج ابھی نصف النہارپر ہے۔مگر جیسے ہی ہم واشنگٹن ڈی سی کے نواحی علاقے بروک پہنچے تو تیز بارش نے آلیاجو کبھی تیز اور کبھی کِن مِن کی صورت واپسی تک ہمارے ساتھ رہی۔
واشنگٹن شہر کے وسطی علاقے میں واقع ’’بوا ‘‘(Bua)تھائی ریستوران میں دوستوں نے اکٹھ کا پروگرام ویسے تو چار بجے کا ترتیب دے رکھا تھا مگر ہمیں وہاں تک پہنچتے پہنچتے ساڑھے چھ ہو گئے۔گوگل نقشہ کی بشارتوں کی بدولت اگرچہ ہم ’’بوا‘‘ریستوارن کے سامنے پہنچ چکے تھے مگر وہ ہونے کے باوجود دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں مدھم سُروں کی بارش میں بھیگتا گاڑی سے اترا اور ندیم سے کہا کہ وہ پارکنگ ڈھونڈیں میں ریستوران ڈھونڈتا ہوں۔مجھے میری جستجو میں زیادہ مشقت نہیں کرنا پڑی کیونکہ جیسے ہی گاڑی سے اتر کر فٹ پاتھ آیا’’بوا‘‘ میرے سامنے تھا مگر ندیم صاحب کو پارکنگ ڈھونڈنے میں دس پندرہ منٹ لگ گئے۔ریستوران میں داخل ہوئے تو شروع شروع ہی میں دروازے کے ساتھ پروفیسر گسائیں اور اُن کی فیملی موجود تھے۔لسانیات میں ڈاکٹریٹ کرنے والے پروفیسر گسائیں گذشتہ پندرہ برس سے امریکی یونیورسٹیوں میں اردو ہندی پڑھا رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں سرائیکی، راجستھانی، پشتو، بلوچی، سندھی، گجراتی، پنجابی، ہریانوی، مارواڑی اور دیگرجنوب ایشائی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ اُن کی بیگم شالینی اگرچہ غیر لسانی شعبے میں مدرس ہیں مگر اُن کی تمام تر دلچسپی اپنے شوہر کی ڈگریوں کے ناتے لسانی علوم سے ہے۔انتہائی کسر نفسی کی حامل یہ خاتون اپنے دکنی پس منظر کے سبب نہایت باریک جملوں سے اپنے پروفیسر صاحب کی گاہے بگاہے کلاس لیتی رہتی ہیں مگر نسوانی ہنرمندی سے آراستہ عاجزی سے مسکراتے ہوئے۔لہذا میاں بیوی میں زور کا جھٹکا بھی دھیرے سے لگتا رہتا ہے اور شاید یہی اُن کی کامیاب عائلی زندگی کا راز ہے۔ یہ نشست بھی بنیادی طور پر علمی مباحث کے حوالے سے تھی لہذا زبانوں کے ارتقاء اور اُن کے درمیان عمل انگیزی کے حوالے سے کی جانے والی ہلکی پھلکی گفتگو ہی میں ایک ایسی بھیگی ہوئی’’شب‘‘ کے نو بج گئے کہ جس کا سورج ابھی ٖغروب نہیں ہوا تھا۔تھکاوٹ کے سبب اب ممکن نہی رہا تھا کہ واشنگٹن کو مزید ٹٹولاجاتامگر اس کے باوجود ندیم صاحب نے پوری کوشش کی کہ تازہ تازہ روشن والی روشنیوں میں ایوان صدر کو دیکھا جائے۔مگر یہ تو بھلا ہواپارکنگ مشین کی خرابی کا کہ جس نے معاوضے کے سکے وصول کرنے کے باوجود اُس کی تصدیقی رسید جاری کرنے سے انکار کردیاتھا۔یوں ہم نے واشنگٹن ڈی سی کا مہکا ہوا وسطی علاقہ اورکیپیٹل ہِل سمیت سبھی دھلی دھلی عمارتیں کار میں بیٹھے بیٹھے ہی دیکھ ڈالیں۔واپسی کا سفر ایک بار اسپرنگ فیلڈ کے خوبصورت پڑاؤ سے عبارت تھاجہاں شب بارہ بجے کے قریب مسور کی دال کی ناکام تلاش کے بعد ایک بار پھر فریڈرکس برگ میں ندیم صاحب کے مہمان خانے کی آرام دہ مسہری ہمیں اگلے دن کے لیے تازہ دم کرنے کے لیے منتظر تھی۔
فیس بک کمینٹ