پاک فوج کے سربراہ جنرل جاوید قمر باجوہ نے ملک کی سیکیورٹی صورتحال اور خطے کے حوالے سے پاکستان کو درپیش مسائل پر سینیٹ کے مکمل ایوان پر مشتمل کمیٹی کے اجلاس کو بریفنگ دی۔
آرمی چیف جنرل جاوید قمر باجوہ نے سینیٹ کے ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ پارلیمنٹ کی ایک اہم کمیٹی میں شریک ہوا ہوں۔ بعض اہم ممالک کے دورے فوجی سفارتکاری کا حصہ ہیں اور علاقائی ممالک سے تعلقات میں بہتری کیلئے دورے معاون ثابت ہوئے. ذرائع کے مطابق آرمی چیف کا کہنا تھا کہ خطے کی جیو اسٹریٹجک صورتحال پر گہری نظر ہے۔ افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ بریفنگ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ بارڈر مینجمنٹ پاک-افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ سینیٹ کی ہول کمیٹی کے اجلاس کو فوجی حکام نے بھی بریفنگ دی۔ فوجی حکام نے سینیٹ ارکان کو بتایا کہ 2015 میں فوجی عدالتوں کی بحالی کے بعد مذکورہ عدالتوں نے اب تک 274 مقدمات کا فیصلہ کیا۔ 161 مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی جبکہ 56 مجرموں کو پھانسی دی گئی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ فوجی حکام نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ 13 مجرموں کو آپریشن رد الفساد سے قبل اور 43 کو آپریشن کے آغاز کے بعد پھانسی دی گئی۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ 7 جنوری کو فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے پر مقدمات پر کارروائی روک دی گئی تھی بعد ازاں 28 مارچ کو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی گئی۔ ذرائع کے مطابق فوجی حکام نے سینیٹرز کو بتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد فوجی عدالتوں کو 160 مقدمات بھیجوائے گئے، جن میں سے 33 پر فیصلہ سنایا گیا، 8 کو سزائے موت اور 25 کو قید کی سزائی دی گئی جبکہ 120 مقدمات 19 نومبر 2017 کو فوجی عدالتوں میں بھیجوائے گئے۔
آپریشن رد الفساد
ذرائع کے مطابق سینیٹ ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے فوجی حکام نے بتایا کہ آپریشن رد الفساد کے تحت اب تک خیبر پختونخوا اور فاٹا میں 1249 کومبنگ اور انٹیلی جنس بیس آپریشن کئے گئے، پنجاب میں 13011 کاروائیاں کی گئی، بلوچستان میں 1410 اور سندھ میں 2015 آپریشنز کئے گئے۔
ذرائع کے مطابق پنجاب میں7 اہم آپریشن جبکہ بلوچستان میں 29 اہم آپیشنز کئے گئے، سندھ میں 2 ، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں 31 اہم آپریشنز کئے گئے، مجموعی طور پر آپریشن رد الفساد کے دوران 69 اہم آپریشنز کئے گئے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ انٹیلی جنس اطلاعات پر مجموعی طور پر 18001 کاروائیاں کی گئی اور4983 سرچ آپریشن کئے گئے، جن میں سے پنجاب میں 4156، بلوچستان میں 45، سندھ میں 224، خیبرپختونخوا اور فاٹا میں 558 سرچ کریشن کئے گئے جبکہ اس دوران مجموعی طور پر 19993 ہتھیار برآمد کیے گئے، جن میں پنجاب سے 2751، بلوچستان 2332، سندھ سے 1046، خیبر پختونخوا اور فاٹا سے 13864 ہتھیار بر آمد ہوئے۔
فوجی حکام نے سینیٹ کی ہول کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں 2013 سے 2017 تک دہشت گردی کے 257 واقعات رونما ہوئے۔
فوجی حکام کے مطابق 2013 میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے 90 واقعات رونما ہوئے جبکہ اپریل اور مئی میں سب سے زیادہ ناخوش گوار واقعات رونما ہوئے اور دونوں مہینوں میں 13، 13 دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔
2014 کی بات کی جائے تو اس سال کا آغاز ہی دہشت گردی کے واقعات سے ہوا اور جنوری کے مہنے میں 13 واقعات رونما ہوئے جبکہ جون اور دسمبر میں 10، 10 دہشت گردوں کے واقعات ملک کے مختلف حصوں میں رونما ہوئے اور اس سال دہشت گردی کے کل 87 واقعات رونما ہوئے۔
2015 کی بات کی جائے تو اس میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی اور پورے سال میں 50 دہشت گردی کے واقعات ہوئے، جس میں سب سے زیادہ 6، 6 واقعات مئی اور جون میں رونما ہوئے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائیوں کے باعث سال 2016 میں دہشت گردی میں کافی کمی واقع ہوئی اور پورے سال میں دہشت گردی کے 14 واقعات رونما ہوئے، اس سال اپریل، مئی، جون اور جولائی میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا جبکہ اس سال سب سے زیادہ 3 واقعات جنوری، مارچ اور اکتوبر میں پیش آئے تھے۔
2017 میں جنوری سے اکتوبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق 16 دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے، جس میں سب سے زیادہ واقعات فروری میں رونما ہوئے جن میں تعداد 3 رہی۔
اس سے قبل سینیٹ سیکریٹریٹ نے بتایا تھا کہ آرمی چیف کی بریفنگ کے بعد آئی ایس پی آر میڈیا کو اجلاس کی کارروائی سے متعلق بریفنگ دے گا۔
آرمی چیف کی آمد پر پارلیمنٹ ہاؤس میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے ان کا استقبال کیا، جس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی تھی۔
آرمی چیف کے ہمراہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹننٹ جنرل نوید مختار بھی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تھے۔
جنرل جاوید قمر باجوہ کی آمد سے قبل ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن ڈی جی ایم او جنرل ساحر شمشاد پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تھے اور انہوں نے پارلیمنٹ میں انتظامات کا جائزہ لیا تھا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور سمیت پاک فوج کے متعدد اعلیٰ عہدیداران سینیٹ پہنچے جبکہ دوسری جانب آرمی چیف کی آمد سے قبل تمام سینیٹرز بھی مذکورہ بریفنگ میں شرکت کے لیے سینیٹ میں موجود تھے۔