اسلام آباد: پاکستانی و برطانوی ماہرین کی ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں ٹائیفائیڈ کی ایک نئی مگر انتہائی خطرناک قسم پھیلنے کا خدشہ ہے، جس پر اینٹی بائیوٹکس دوائیوں کا بھی اثر نہیں ہو رہا۔ ماہرین نے تاحال اس ٹائیفائیڈ کو کوئی مخصوص نام نہیں دیا، تاہم تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ یہ قسم اتنی خطرناک ہے کہ اس پر عام اینٹی بائیوٹک دوائیں بھی اثر نہیں کر رہیں اور یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق برطانیہ کی کیمبرج اور پاکستان کی آغا خان یونیورسٹی کے ماہرین ٹائیفائیڈ کی اس نئی قسم پر تحقیقات کررہے ہیں۔ اس بیماری کے بارے میں پہلی بار نومبر 2016 میں پتہ چلا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ٹائیفائیڈ کی اس خطرناک قسم کی شروعات صوبہ سندھ کے ضلع حیدرآباد کے تحصیل لطیف آباد سے ہوئی، جو فوری طور پر ملحقہ اضلاع اورعلاقوں تک پھیل گئی اور اب تک یہ برطانیہ تک پہنچ چکی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ خطرناک ٹائیفائیڈ صوبہ سندھ کے حیدرآباد، ٹنڈوالہ یار، بدین اور جامشورو اضلاع کے دیگر علاقوں تک پھیل چکا ہے، جس کے مریضوں میں حیران کن طور پر اضافہ دیکھنا میں آیا ہے۔مقامی ڈاکٹرز کے مطابق اس وقت حیدرآباد میں اس ٹائیفائیڈ میں مبتلا روزانہ کم از کم 2 مریض آ رہے ہیں، جن کی عمریں 3 سے 12 سال تک ہوتی ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق ٹائیفائیڈ کی اس خطرناک قسم کے مریضوں کو ابتدائی دنوں میں مسلسل اینٹی بائیوٹکس دی جاتی رہیں مگر ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، جس کے بعد اب متاثرہ علاقوں میں خصوصی اور مہنگی ویکسین فراہم کی گئی ہے۔رپوٹ کے مطابق آغاز ہسپتال کی جانب سے حیدرآباد کے لطیف آباد اور قاسم آباد تعلقوں کے ڈھائی لاکھ بچوں میں خصوصی ویکسین ٹائپ-بار ٹی وی سی دی جا رہی ہے کیوں کہ ان مریضوں پر بائیوٹکس اثر نہیں کر رہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر ٹائیفائیڈ کی یہ قسم مضر صحت پانی استعمال کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ تاہم اس حوالے سے حتمی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ