اسلام آباد : اسلام آباد میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی حکومت مخالف آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے بعد تیار کردہ ایکشن پلان میں جنوری میں لانگ مارچ کا اعلان کرنے کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ سے سیاست میں مداخلت بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اے پی سی کی جانب سے منظور کردہ قرار داد جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے پڑھ کر سنائی گئی جس میں اکتوبر سے ملک گیر احتجاجی مظاہروں کا بھی اعلان کیا گیا اور اس اتحاد کو ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘ کا نام دیا گیا۔
قرارداد میں حکومت سے متعدد مطالبات کیے گئے ہیں جن میں سی پیک کے حوالے سے وزیرِ اعظم کے مشیر عاصم باجوہ کے خلاف حال ہی میں لگائے گئے الزامات کی تفتیش کا مطالبہ شامل تھا۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ملک میں شفاف، آزادانہ، غیر جانبدارانہ انتخابات یقینی بنائے جائیں اور اس موقع پر فی الفور ایسی اصلاحات کی جائیں جن میں فوج اور ایجنسیز کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔
اس کے علاوہ اے پی سی کی قرار داد میں اٹھارویں ترمیم کی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا کہ اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔قرارداد میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ’سقوطِ کشمیر‘ کا ذمہ دار بھی موجودہ حکومت کو ٹھہرایا گیا اور حکومت کی افغان پالیسی پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ ’پاکستانی شہریوں کو مسنگ پرسنز بنانے کی روایت کو ختم کیا جائے اور پہلے سے مسنگ پرسنز کو عدلیہ کے سامنے پیش کیا جائے۔‘اجلاس میں موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ آٹے، چینی، گھی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو فوری طور پر کم کیا جائے۔
اس کے علاوہ ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کی کوششوں کو بھی رد کیا گیا اور کہا گیا کہ وفاقی پارلیمانی جمہوریت ہی ملک کے تحفظ کی ضامن ہے۔قرار داد میں ملک میں میڈیا پر تاریخ کی بدترین لگانے، دباؤ اور سینسرشپ کے ہتھکنڈوں کی شدید مذمت کی گئی اور گرفتار صحافیوں کو رہا کرنے کے علاوہ جن صحافیوں پر غداری کے مقدمات درج کیے گئے ہیں انھیں خارج کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔قرارداد میں ملک بھر نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور ساتھ ہی اسلام آباد سمیت ملک بھر میں حالیہ فرقہ وارانہ تناؤ کو خطرناک قرار دیا گیا اور حکومت کی مجرمانہ غفلت کی شدید مذمت کی گئی۔
قرار داد اور ایکشن پلان کے اعلان کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اب اے پی سی میں موجود جماعتیں ’سیلیکٹڈ حکومت اور ان کے سہولت کاروں‘ کے خلاف تحریک شروع کر رہے ہیں۔انھوں نے پی ٹی آئی کے اندر سے کسی اور آپشن سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس حوالے سے تمام جمہوری روایات کو ذہن میں رکھیں گے لیکن ہمیں ایک سلیکٹڈ وزیرِ اعظم کے بدلے دوسرا سیلیکٹڈ وزیرِ اعظم نہیں چاہیے۔‘
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ