1996میں، میں نے PTV کے لیے سات قسطوں کا ایک سیریل لکھا تھا ”عجائب خانہ“ جو پی ٹی وی کی پالیسی کی وجہ سے، مکمل شوٹ ہونے کے بعد دو ڈھائی سال تک پھنسا رہا اور 1999/2000 میں تھوڑی سی کانٹ چھانٹ کے بعد آن ائر گیا۔
بقول اقبال انصاری (جو اس کھیل کے ڈائریکٹر تھے) بعد میں اس ڈرامے کے کئی چھلکے بنائے گئے۔یہ کہانی عشق میں انسان کی داخلی کیفیات سے متعلق تھی۔
اس کہانی کا بہت سا حصہ میں نے ملتان کا لکھا تھا۔ کہانی کا ایک اہم کردار بہاؤالدین زکریا کی خاص عقیدت مند دکھائی تھی۔میں نے کیوں ملتان لکھا تھا اور کیوں بہاؤالدین زکریا کا ذکر کیا، یہ کبھی میں سمجھ نہ سکی، کیونکہ میں نہ کبھی ملتان گئی تھی، نہ ملتان دیکھنے کا شوق تھا اور نہ بہاؤالدین زکریا سے کچھ تعلقِ خاطر تھا!
یہ کہانی میں نے سچ مچ ڈوب کر لکھی تھی، مگر ملتان اور بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ کیوں؟
جبکہ بنیادی کہانی کراچی کی تھی۔
یہ کہانی پالیسی کے عتاب میں ایک منظر کی وجہ سے آئی، جس میں مسلمان کردار اپنے عشق کی کیفیت کو جرم محسوس کرتے ہوئے، چرچ میں پادری کے سامنے اس کیفیت کا اعتراف کرتا ہے اور پادری یہ جاننے کے بعد کہ لڑکا مسلمان ہے، اسے مشورہ دیتا ہے کہ مسلمانوں میں فجر کی نماز پڑھی جاتی ہے، جب بندہ مکمل تنہا خدا کے حضور پیش ہوتا ہے، وہ نماز پڑھا کرو اور اس کے آگے اپنی کیفیت بیان کرو۔
کہا گیا کہ پادری کیوں؟ پادری مسلمان کو کیوں نماز کا کہے گا؟
میں نے عرض کیا کہ نبوت کی پہلی تصدیق بھی تو ورقہ بن نوفل نے کی تھی!کہا گیا کہ یہ منظر نکالو تو ڈرامہ چلے گا۔
بالآخر میں نے اور اقبال انصاری نے سمجھوتہ کیا اور مسلمان پروفیسر کو لائبریری میں دکھایا (میں نے انکار کر دیا کہ مولوی نہیں دکھاؤں گی)
ڈرامہ آن ائیر ہوا۔ اس کا آخری شاٹ بہاؤالدین زکریا کا مزار تھا، جو میں نے لکھا تو تھا مگر دیکھا نہ تھا۔پچھلے دو دن سے میں پہلی مرتبہ ملتان میں ہوں۔
آج پہلی مرتبہ ملتان کے مزارات پر گئی۔ سورج ڈھل رہا تھا۔ ڈرائیور اپنی مرضی سے پہلے شمس تبریز پر، پھر شاہ رکن عالم پر اور آخر میں بہاؤالدین زکریا پر لے آیا۔
کسی خالی الدماغ اجنبی کی طرح پہلے دو مزارات پر فاصلے سے فاتحہ پڑھ کر، بہاؤالدین زکریا پہنچی تو شام اندھیرا اوڑھ چکی تھی۔
اندر جاتے ہوئے اچانک محسوس ہوا کہ ان صاحبِ عرفان سے تو میرا برسوں پر محیط دوستی کا سا تعلق ہے! جیسے یہ پہلی ملاقات نہ ہو! بس ایک طویل عرصہ بیچ سے گزرا ہو!
ذاتی طور پر میں مزاروں کی دل دادہ نہیں ہوں (میرا ذوق و شوق کہیں اور ہے) مگر سیدھی حضرت کی قبر کے سرہانے جا کھڑی ہوئی (عجائب خانہ تو یاد ہی نہ رہا) بس ایک روبرو ملاقات کا سا لمحہ!
اک نگاہِ مہر!
نہ حالِ دل کہا اور نہ احوال سنا!
بس سادہ سی فاتحہ!
مگر واپسی میں قدم کیوں بوجھل ہوئے؟ معلوم نہیں!
جیسے کچھ اٹھانا تھا جو رہ گیا ہے پیچھے!
شاید ہم جو کہانیاں لکھتے ہیں، ان میں کہیں وہ بیج بھی موجود ہوتا ہے جو ہمارے اندر رہ جاتا ہے!
کبھی مرجھا جاتا ہے!کبھی پودا یا درخت بن جاتا ہے!
گو کہ معاملہ إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون کا ہی ہے۔
فیس بک کمینٹ