یہ”معجزہ“ بھی صرف مملکت خداداد میں برپا ہو سکتا تھا کہ اس کی اعلیٰ ترین عدالت کئی ہفتوں تک روزانہ کی بنیاد پر سماعت اور بعدازاں ایک جان لیوا انتظار کے بعد کوئی فیصلہ سنائے اور دستاویزاتِ پانامہ کے منکشف ہونے کی وجہ سے اُٹھے طوفان سے متعلق تمام فریقین اسے اپنی فتح سمجھیں۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کئی مہینوں سے ہمیں بتائے چلے جا رہے تھے کہ مذکورہ فیصلہ ایک”تابوت“ کی مانند ہوگا جس میں ”قانون“ یا “نون“ میں سے کسی ایک کی لاش برآمد ہوگی۔ ایک فلمی گیت والا ”ٹانگا“ مگر”کچہری“ سے بغیر کسی سواری کے واپس لوٹا اور ”سجناں“ کو قید بھی نہیں سنائی گئی۔ فیصلے کا اعلان ہوا تو شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی سے مل کر اس کا خیرمقدم کیا۔ مریم نواز شریف کو اپنے درمیان کھڑا کرکے دونوں بھائیوں نے ایک تصویر بھی جاری کی۔مقصد اس تصویر کا دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ گزشتہ جمعرات کے روز آئے”تاریخی فیصلے“ نے شریف خاندان کو سرخرو کردیا ہے۔شریف خاندان کے ان دنوں”اصل شریک“ شمار ہوئے عمران خان کے بنی گالہ والے گھر میں بھی ایک جشن برپا تھا۔ تحریک انصاف کے صف اوّل کے رہ نما وہاں ایک کمرے میں جمع ہوئے پسینے سے شرابور تھے مگر ایک دوسرے کے منہ میں گلاب جامن کے ٹکڑے ڈال رہے تھے۔ وہ مطمئن تھے کہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کی ”تلاشی“ جاری رہے گی۔ اس ”تلاشی“ کے بعد بھی کچھ برآمد ہویا نہیں شریف خاندان کو ایک معزز جج نے جرائم پیشہ ”گاڈفادر“ کا خاندان قرار دے ہی ڈالا ہے۔ شہرئہ آفاق فرانسیسی ناول نگار-بالزاک-کے ایک مشہور فقرے کو دہراتے ہوئے شاعرانہ انداز میں یہ بھی کہہ ڈالا کہ شریف خاندان کی خیرہ کن دولت کے پیچھے کوئی ”جرم“ یقیناً چھپا ہوگا۔تلاش اب صرف اس ”جرم“ کو کرنا ہے۔ چھ مختلف ریاستی ادارے اپنا ایک ایک نمائندہ محض سپریم کورٹ کو جوابدہ JIT کی تشکیل کے لئے نامزد کریں گے۔ یہ ٹیم ہر دو ہفتوں کے بعد اپنی تفتیش میں ہوئی پیش رفت کے بارے میں اعلیٰ ترین عدالت کو آگاہ کرتی رہے گی۔ اپنے قیام کے عین 60دن بعد اس ٹیم کو اپنا کام مکمل کرنا ہوگا جس کے بعد عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں بدعنوانی کے مقدمات چلانے کے لئے مناسب مواد میسر ہوا ہے یا نہیں۔اس مواد کی بنیاد پر اگر ایک اور عدالتی عمل کا آغاز ہوگیا تو آنے والے کئی برسوں تک شریف خاندان کے خلاف ”پیشی پر پیشی“ والا سماں نظر آتا رہے گا۔مختصر ترین الفاظ میں یوں کہہ کیجئے کہ دستاویزاتِ پانامہ کے منکشف ہونے کے ایک سال بعد بھی ”فیصلہ“ نہیں ہوا کہ شریف خاندان کی خیرہ کن دولت اور اثاثوں کے پیچھے کوئی ”جرم“ چھپاہے یا نہیں۔پکچر ابھی باقی ہے دوست۔“ہمہ وقت چوکس اور حق گو اینکر خواتین وحضرات کی جانب سے کرپشن کے خلاف برپا جہاد کی بدولت ہمارے 24/7 چینلوں نے قوم کو اس ”پکچر“ کا عادی بنادیا ہے۔پارسائی کے نشے کی لت میں مبتلا ہوئے لوگوں کو روزانہ کا Fix نہ ملے تو جمائیاں لینا شروع ہوجاتے ہیں۔ہرسو اداسی پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔قوم میں جوش وجذبے کو زندہ رکھنے کے لئے لہذا اس ”پکچر“کا قسط وار ڈراموں کی صورت میں تسلسل ضروی ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ آئندہ 64دن گزرجانے کے بعد بھی یہ ”پکچر“ جاری رہے گی۔
اپنے سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے کے لئے سوموٹواختیارات کے حامل سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے یہ ”پکچر“چلانے کا رواج پاکستان مسلم لیگ (نون) ہی نے شروع کیا تھا۔وکلاءکی تحریک اور نواز شریف کے لانگ مارچ کی بدولت بحال ہوئے ”ارسلان کے ابو“ نے رینٹل پاور پلانٹ اور حج سکینڈل کے حوالے سے بہت رونق لگائی تھی۔آصف زداری کی جانب سے سوئس بینکوں میں چھپائی دولت کو ریاستی خزانے میں واپس لانے کی پکچر بھی وہیں چلی تھی جس کا انجام ایک وزیراعظم -یوسف رضا گیلانی- کی توہینِ عدالت کے جرم میں نااہلی کی صورت ہوا تھا۔
نومبر2011ء میں پھر ایک ”میموگیٹ“ ہوگیا تھا۔نواز شریف خود کالاکوٹ پہن کر ”غداروں“ کو بے نقاب کرنے اور انہیں سزائیں دلوانے کے لئے متحرک ہوگئے تھے۔اسے مکافاتِ عمل ہی کہیے کہ دستاویزاتِ پانامہ کی وجہ سے شریف خاندان کواب سپریم کورٹ کے روبرو اپنی صفائی پیش کرنا پڑی تو راولپنڈی کے بقراطِ عصر نے خود اپنا وکیل بن کر دلائل بھی دئیے۔What Goes Around Comes Around والی کہاوت درست ثابت ہوگئی۔
گزشتہ جمعرات کی سہ پہر سپریم کورٹ کے فیصلے کا اعلان ہوجانے کے بعد سے متعلقہ فریقین نے جس انداز میں اپنی فتح کا جشن برپا کیا وہ کم از کم مجھے اس بات پر قائل کرنے میں بالآخر کامیاب رہا کہ ہمارے تمام سیاستدان کسی استثنیٰ کے بغیر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں سے قطعاََ محروم ہوچکے ہیں۔ ان کی عقل پرپردے پڑچکے ہیں اور شاید ایسے ہی لوگوں کے لئے میرا ربّ کلام پاک میں جلالی جھلاہٹ کے ساتھ سوال کرتا ہے کہ ”وہ“غور کیوں نہیں کرتے۔
یقین مانیے گزشتہ جمعرات کے روز سپریم کورٹ نے جو ”تاریخی“ فیصلہ سنایا ہے اس پر عملدرآمد شروع ہونے کے ساتھ ہی وطن عزیز مسلسل جھٹکوں کی زد میں رہے گا۔انتشار،افراتفری اور ہیجان پوری شدت کے ساتھ آنے والے کئی برسوں تک ہمارے سروں پر سوار رہیں گے۔ فیصلہ 575 صفحات پر مشتمل ہے۔ لکھا بھی اسے انگریزی میں گیا ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ ہی کا ایک ”تاریخی“ حکم یہ بھی تھا کہ تمام ریاستی اور عدالتی دستاویزات اُردو زبان میں قلم بند کی جائیں۔
اس ضخیم فیصلے کو شاید ہی کسی سیاستدان نے کسی ٹھنڈے دماغ والے ماہر قانون کے ساتھ بیٹھ کر سمجھنے کی کوشش کی ہوگی۔ایسا ہوا ہوتا تو ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلاتے نظر نہ آتے۔صرف ایک کالم میں میرے لئے ناممکن ہے کہ مذکورہ فیصلہ میں چھپے ایک نہیں ہزار ہا ”نازک مقامات“ کا تفصیل سے ذکر کرسکوں۔ فی الوقت بنیادی اور دل دہلا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ دستاویزاتِ پانامہ کی سماعت کرنے والے ججوں نے واضح الفاظ میں بتادیا ہے کہ ہماری نیب اور ایف آئی اے طاقت ور لوگوں پر ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں۔ وہ اگر تیار ہوبھی جائیں تو ان کے پاس یہ صلاحیت ہی موجود نہیں کہ سو طرح کے ہتھکنڈوں سے محفوظ بنائی دولت کے حقیقی منبع کا سراغ لگا سکیں۔ Money Trail کا کھوج لگانے کے لئے لہذا فوج کے تحت کام کرنے والے دو ”انٹیلی جنس“ اداروں سے رجوع کرنا پڑا ہے۔ جاسوسی اور تفتیش دُنیا بھر میں قطعاََ مختلف شعبے تصور کئے جاتے ہیں۔ ISI اور MI البتہ ان دونوں معاملات کے بارے میں یکساں طورپر ماہر تسلیم کئے گئے ہیں۔اس ”مہارت“ کے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ذریعے اثبات کے بعد عقل کا کوئی اندھا ہی پاکستان میں ”سول بالادستی“ کا ڈھول بجاسکتا ہے۔ثابت ہوا ہے تو صرف اتنا کہ ریاستِ پاکستان میں فوج ہی وہ واحد ادارہ باقی بچا ہے جس کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور دیانت پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ پاک فوج کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ ”شوشا“ ہے۔ ”سول بالادستی“ کو اجاگر کرنے والے ادارے خواہ وہ پارلیمان ہو یا ”صرف اس کو جوابدہ“ جرائم اور بدعنوانی کا سراغ لگانے والی نیب اور ایف آئی اے یہ سارے کے سارے ادارے قطعاََ بدنیت اور نااہل لوگوں پر مشتمل ”آنیاں جانیاں“ اور کروفر ہیں۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ایک عام پاکستانی شہری ہوتے ہوئے میں نیب اور ایف آئی اے پر سپریم کورٹ کے جمعرات والے فیصلے کے آجانے کے بعد اعتبار کیوں کروں اور یہ صرف ایک سوال ہے۔ میرے پاس بہت سارے سوالات پر مشتمل ایک طویل ”پکچر“ ہے۔ میں روزانہ کی بنیاد پر اسے آپ کو دکھانے کی کوشش کروں گا۔
(بشکریہ ۔۔ روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ