سوتے میں خواب ہر شخص دیکھتا ہے۔ بہت کم لوگوں کو لیکن صبح اُٹھ کر یہ خواب یاد رہتے ہیں۔ میرا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے۔ چند دنوں سے معاملہ مگر مختلف ہوچکا ہے۔ صبح اُٹھتا ہوں تو خواب میں آئے واقعات جزئیات سمیت ذہن میں موجود رہتے ہیں۔ دُکھ اس بات کا ہے کہ عموماََ ناخوش گوار نہ ہونے کے باوجود ان خوابوں کے موضوعات اور کردار سیاسی ہوتے ہیں۔ کوئی شاعرانہ بات نہیں ہوتی۔
اپنے خوابوں پر چھائے سیاسی موضوعات اور کرداروں نے مجھے پریشان کردیا ہے۔آج کی سیاست کے بارے میں شاید بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ لاشعوری طورپر قلم مگر ان مقامات کی طرف بڑھتا ہی نہیں جو میری دانست میں No Go Areaہیں۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں کل وقتی صحافت کو دل وجان سے اختیار کیا تھا۔ ابھی تک میرے رزق کا واحد وسیلہ یہ ہی پیشہ ہے۔
غازی ضیاءالحق شہید کی روح کو ہزاروں سلام۔ مرحوم نے واضح انداز میں بتادیاتھا کہ ”ایہہ منظور تے ایہہ نامنظور“ ۔ اخبار کی کاپی پریس بھیجنے سے قبل سنسر کے لئے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ جاتی۔ ناپسندیدہ خبریں اور فقرے وہاں سے نکال دئیے جاتے۔ صحافی ضمیر کی خلش وغیرہ میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہتے۔ ”جو میرا فرض تھا میں نے پورا کیا۔ اب خدا ہی نہ چاہے تو میں کیا کروں؟“ والی سوچ دل کو تسلی دیتی۔
آج کا پاکستان مگر آزاد و بے باک صحافت کا دعوے دار ہے۔ کئی اینکر خواتین وحضرات ہمارے ہاں حق گوئی کی زندہ مثالیں بھی ٹھہرائے جاچکے ہیں۔ان کی بلند آہنگی نے پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے شخص کو بدعنوان ٹھہراکر عوامی عہدے کے لئے تاحیات نااہل کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ان دنوں بھی یہ حق گو افراد اس بات کو یقینی بنارہے ہیں کہ نواز شریف کوئی NROلے کر اڈیالہ جیل سے رہا نہ ہوپائیں۔ ان کے ساتھ وہی سلوک ہوجو عام مجرموں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔
حق گوئی مگر یہ تقاضہ کرتی ہے کہ وقتِ حاضر کے طاقت وروں پر بھی نگاہ رکھی جائے۔ ان کی جانب رُخ موڑنے کے امکانات لیکن محدود ہورہے ہیں۔ مجھ جیسے رزق پرست اور محتاط لوگ بھی جو باتیں لکھ نہیں سکتے خوابوں میں دیکھنے کو مجبور ہورہے ہیں۔یوں ذہن میں جمع ہوئے مواد کی نکاسی کا بندوبست ہوجاتا ہے۔آزاد اور بے باک صحافت کے عادی ہوئے قارئین وناظرین مگر چین سے رہنے نہیں دیتے۔سینکڑوں کی تعداد میں ٹویٹر وغیرہ کے ذریعے کچھ ویڈیو وصول ہورہے ہیں۔ انہیں بھیجنے والے سوال اٹھارہے ہیں کہ میڈیا ویڈیو میں نظر آنے والی خبر یا واقعات کا تذکرہ کیوں نہیں کررہا۔ ”زباں پہ چھالے پڑگئے کیا؟“
مجھے جب ایسے ویڈیوز میں Tagکیا جاتا ہے تو یقین مانیں بہت حیرت ہوتی ہے۔ اس کالم کے باقاعدہ قاری گواہی دیں گے کہ آج سے کئی ماہ قبل میں نے تواتر کے ساتھ ”میڈیا کا مکو ٹھپ ہونے والا ہے“ جیسے خدشات کا اظہار شروع کردیا تھا۔ 5th Generation Warکے تقاضوں کو بھی کئی بار بیان کیا۔یہ سب کرتے ہوئے بھی ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا کہ صحافت کوئی مشن نہیں دھندا ہوتا ہے۔ اخبار کو محض سرکولیشن ہی نہیں اشتہارات بھی درکار ہوتے ہیں ۔ ٹی وی چینل کے لئے ضروری ہے کہ ریموٹ کابٹن دباتے ہی اس نمبر پر نظر آئے جو آپ کی سکرین پر اس کے لئے مختص ہے۔ ٹی وی سکرین پر کوئی چینل موجود ہی نہ ہو تو Ratingsنہیں آئے گی۔ اس کے بغیر اشتہاری کمپنیاں کسی چینل کو گھاس نہیں ڈالتیں۔
عمران خان صاحب کو اس حقیقت کا بخوبی علم ہے۔ آج سے 8برس قبل ایک ٹی وی چینل کے لئے ان کا انٹرویو کیا تھا۔ وہ اس کے لئے تشریف لائے تو مائیک وغیرہ لگوانے سے قبل مختلف ٹی وی اینکروں کے نام لے کر ان کی Ratingکا تذکرہ کرتے رہے۔ مجھے حیرت ہوئی کیونکہ بذاتِ خود 2007سے ٹی وی شوز کی دنیا میں آکر بھی میں نے کبھی اپنی Ratingsمعلوم کرنے کا تردد ہی نہیں کیا۔
امریکی صدر ٹرمپ اور ترکی کے سلطان اردوان کی طرح خان صاحب کو بخوبی علم ہے کہ دور حاضر میں کسی سیاست دان کا Imageبنانے یا بگاڑنے میں ٹی وی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسی باعث وہ کچھ چینلز کے خلاف اعلان جنگ کردیتے ہیں۔ مخصوص اینکروں کو One on Oneانٹرویو دیتے ہیں۔ شاذہی کبھی Liveسوالات لئے۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر سے ان کی عقیدت کا اصل سبب بھی صاحب مذکور کی” Ratingsکا شیر”والی شہرت ہے۔
مجھے کامل یقین ہے کہ وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعدبھی وہ ٹی وی کے ذریعے Perception Management جاری رکھیں گے۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد انہوں نے جو وکٹری تقریر کی اس میں سیاسی مخالفین کو معاف کردینے کا اعلان ضرور کیا مگر آزادی¿ صحافت کی یقین دہانی دلانے سے گریز کیا۔ مجھے خدشہ یہ بھی ہے کہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرلینے کے بعد وہ سوشل میڈیا کی وساطت سے پھیلی ”واہی تباہی“ کو قابو میں لانے کی کوششیں بھی شروع کردیں گے۔ 5th Generation Warکے بارے میں خبردار ہوئی قوتیں اس ضمن میں ان کا بھرپور ساتھ دیں گی۔ ہمارے ہاں کا انٹرنیٹ چین وایران جیسا ہوجائے گا۔
خان صاحب کی اصل مجبوری مگر یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں ان کی اپوزیشن عددی اعتبار سے بہت طاقت ور ہوگی۔ سیاست دان جب اپوزیشن میں ہوں تو آزادی¿ صحافت کے بارے میں بہت پریشان رہتے ہیں۔ محض ان کی پریشانی مگر کام نہیں آئے گی۔شاید کوئی تحریک چلانا ہوگی۔ یہ تحریک سیاست دان مگر میڈیا کی آزادی کے لئے نہیں خاں صاحب کی حکومت کو دیوار سے لگانے کے لئے چلائیں گے۔ یہ سب کرتے ہوئے بھی انہیں یہ خوف لاحق رہے گا کہ حکومت پر دباﺅ اتنا بھی نہ بڑھایا جائے کہ ”عدم استحکام“ یا ”خانہ جنگی“ جیسی کیفیات حاوی ہوتی نظر آئیں۔ نام نہاد ”سسٹم“ کی بقاءخطرے میں پڑ جائے۔ صحافیوں کو لہذا اپنی تنخواہ بچانے کی روش اختیار کرنا ہوگی۔ جو باتیں لکھ اور بول کر بیان نہیں کرسکتے انہیں خوابوں کے ذریعے اپنے ذہن سے نکالنے کی تیاری کریں۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ