1986میں میرا ’’آتش‘‘ جوان تھا۔ جس اخبار کا رپورٹر تھا اس کے مدیر مشاہد حسین سید ہوا کرتے تھے۔ امریکی اخبارات کے مدیران پر مشتمل ہماری کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز(CNPE)جیسی ایک تنظیم تھی۔ اس نے تیسری دُنیا کے ممالک سے 12صحافیوں کو چن کر انہیں اپنے ایک مشہور تعلیمی ادارے فلیچرسکول آف لاء اینڈ ڈپلومیسی میں مزید صحافت سکھانے کا فیصلہ کیا۔ اس کورس کے لئے نامزدگی کے بعد میرا انتخاب بھی ہوگیا اور اس کورس کی بدولت میں نے دریافت کی تو صرف یہ حقیقت کہ عالمی اخبارات بہت مہارت کے ساتھ عالمی اشرافیہ کے طے شدہ ایجنڈے کے حصول میں معاونت کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اگرچہ اس ڈھٹائی سے شاذہی کام لیا جاتا ہے جو عراق پر جنگ مسلط کرنے سے قبل صدام حسین کے نام نہاد Weapons of Mass Destructionکے حوالے سے اختیار کی گئی تھی۔ عموماََ ٹھوس حقائق کو بنیاد بنانے پر ہی زور دیا جاتا ہے۔ ان حقائق کو Spinکرکے البتہ اپنی پسند کی کہانی ضرور گھڑی جاسکتی ہے۔
اس تمہید کے بعد فوراََ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اثرورسوخ سے ہرگز خوش نہیں ہے۔ اس کا متعارف کردہ Belt and Roadsپروگرام اس کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ پاک-چین کے مابین اس حوالے سے CPECوالا منصوبہ بھی اسے قبول نہیں۔ وہ اسے ہر صورت ناکام دیکھنا چاہتی ہے۔ اس کی جانب سے ’’آخری ضرب‘‘ لگانے کے لئے صرف مناسب وقت کا انتظار ہورہا تھا اور اس کی دانست میں اب وہ وقت قریب آپہنچا ہے۔
پاکستان سے ہوئی برآمدات سے ملی رقم اور یہاں آئی درآمدات پر ہوئے خرچ کے درمیان فرق ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔ باور کیا جارہا ہے کہ درآمدات پر اصل خرچہ CPECکے تحت چلائے منصوبوں کی مشینری پر صرف ہوا ہے۔چین کے علاوہ دیگر ممالک اور عالمی اداروں سے لئے قرضوں کی اقساط بھی ادا کرنا ہے۔ یہ سب مل کر ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر کو خطرناک حد تک خشک کررہے ہیں۔ معاشی ماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ ریاستِ پاکستان کے پاس کاروبار گلشن چلانے کے لئے IMFکے پاس ایک اور بیل آئوٹ پیکیج کی درخواست لے کر جانے کے سوا اور کوئی راستہ ہی موجو نہیں۔ عمران خان کی حکومت مگر کشکول اٹھانے سے نفرت کرتی ہے۔ بہت ضد کے ساتھ یہ چاہ رہی ہے کہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے میں واپس لاکر گزارہ چلائے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور چین جیسے دوستوں سے وقتی سہولت کے لئے کوئی Cushionمل جائے۔
حکومت کی نیت نیک اور ارادے مستحکم ہیں۔ معروضی حقائق کا جبر مگر نیتوں اور ارادوں کو پاش پاش کردیا کرتا ہے۔ اس جبر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ ایک مکار شاطر کی طرح ہماری جانب سے IMFکا دروازہ کھٹکھٹانے کا انتظار کررہی ہے۔
ہمارے وہاں پہنچنے کے امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی عمران خان صاحب کے وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے چند ہی روز بعد امریکی وزیر خارجہ ایک ٹی وی انٹرویو میں بہت رعونت کے ساتھ یہ اعلان کرنے کو راغب ہوا کہ پاکستان امریکہ سے یہ توقع نہ رکھے کہ وہ ڈالروں کو چینی قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال ہونے دے گا۔پیغام بہت واضح تھا اور وہ یہ کہ ہماری مدد چاہیے تو CPECپر نظرثانی کرو۔
عمران خان صاحب کی حکومت کی جانب سے چند ٹھوس وجوہات کی بنا پر انہیں CPEC پر ’’نظرثانی‘‘ کی امید بھی تھی۔ یہ امید 2014کے دوران اسلام آباد میں دئیے دھرنے کے دنوں سے بندھنا شروع ہوئی تھی۔ اس دھرنے کی وجہ سے چینی صدر نے پاکستان آنے سے اجتناب برتا۔ جو وقت بچا اسے ہمارے ازلی دشمن بھارت کے وزیر اعظم کے گجرات میں واقعہ آبائی گھر میں جاکر صرف کیا۔ ہم مگر ہرگز پریشان نہیں ہوئے کیونکہ چین اپنا یار ہے اور اس پہ جان بھی نثار ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
بات فقط ماضی تک ہی محدود نہیں رہی۔ عمران خان صاحب کی بنائی وفاقی کابینہ کا پہلا اجلاس ہوا تو اس کے اختتام پر اعلان ہوا کہ CPECکے تحت چلائے منصوبوں کے Review(نظرثانی کے علاوہ اس کا کوئی ترجمہ میسر نہیں) کے لئے ایک وزارتی کمیٹی بنائی جائے گی۔ مخدوم خسروبختیار اس کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید دیگر اراکین میں شامل ہیں۔
اس Reviewکے تناظر ہی میں دنیا بھر کے سیٹھوں اور کاروباری اداروں کے لئے بائبل گردانے برطانوی اخبار ’’فنانشل ٹائمز‘‘ نے عمران حکومت کے ایک اہم مشیر رزاق دائود صاحب سے رجوع کیا۔رزاق صاحب نے CPECکے بارے میں اپنے جن تحفظات کا اظہار کیا وہ اس حکومت کے آنے سے قبل ایک نجی کاروباری ادارے کے سربراہ کی حیثیت میں مقامی اخبارات کو تفصیلی انٹرویوز کے ذریعے بیان کرچکے ہیں۔ ان کا بنیادی گلہ یہ رہا کہ CPECکے تحت چلائے کسی منصوبے کی تکمیل کے لئے ٹینڈر وغیرہ مانگے جائیں تو چینی کمپنیوں کو دوسروں کے مقابلے میں "Undue”ترجیح دی جاتی ہے۔ عمران حکومت کے مشیر تجارت کی حیثیت میں تقریباََ یہ ہی بات انہوں نے مختلف الفاظ وانداز میں دہرائی ہے۔ اسی لئے ’’فنانشل ٹائمز‘‘ میں جب CPECکی بابت ان کا انٹرویو چھپا تو ہاہاکار مچ گئی۔
Damage Controlکی خاطر رزاق صاحب نے جو وضاحت جاری کی وہ کسی بھی صورت ان کی جانب سے منسوب الفاظ کی دوٹوک تردید نہیں تھی۔محض یہ دعویٰ ہوا ہے کہ ان کے الفاظ کو سیاق وسباق سے ہٹ کر بیان کیا گیا ہے۔ نظر بظاہر چینی حکومت نے ان کے اس دعوے کو تسلیم کرلیا ہے۔انگریزی محاورے والا Damageمگر ہوچکا ہے۔ اس کی تلافی کے لئے پاکستان اور چینی حکومتوں کو باہم مل کر بہت کچھ کرنا ہوگا۔ صرف ’’فنانشل ٹائمز‘‘ کی مذمت کام نہیں آئے گی۔
’’فنانشل ٹائمز‘‘ کی مذمت کرتے محبان وطن کو اگرچہ اس کالم کا اختتام کرتے ہوئے میں یہ بات ضرور یاددلانا چاہوں گا کہ آصف زرداری کو زچ کرردینے والی نام نہاد ’’میموگیٹ‘‘ کہانی بھی اس اخبار کے لئے منصور اعجاز نامی ایک بین الاقوامی وارداتیے نے لکھی تھی جو نجانے ان دنوں کہاں چھپا ہوا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ