پاک،بھارت تعلقات کو ان دنوں ہمیں مخدوم شاہ محمود قریشی اور ان کی وزارت نہیں بلکہ فواد چودھری صاحب زیادہ بہتر انداز میں سمجھارہے ہیں۔ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کو ہمہ وقت میسر وزیر اطلاعات کی بدولت خبر اب یہ ملی ہے کہ دلّی کی جانب سے نیویارک میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کے امکان کو کافی چھچھورے انداز میں رد کرنے کے باوجود اسلام آباد سکھوں کے لئے دربارکرتارپور تک رسائی والی پیش کش پر قائم ہے۔
فواد چودھری ایک کھلے ڈلے جاٹ ہیں۔ پاکستان کے بارے میں بہت پرجوش اور پُراعتماد بھی۔ وہاں کی صحافی جیوتی ملہوترا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بھارتی صحافیوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں آسانیاں فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان کی وزارتِ اطلاعات کی جانب سے ”مستند“ مانے صحافیوں کو ہمارے سفارت خانے سے ویزے کے حصول کا انتظار کئے بغیر Visa on Arrivalکا بندوبست ہونا چاہیے۔ وہ اپنی اس خواہش کو عملی صورت دینے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔
ہمارے وزیر اطلاعات کی جانب سے پاکستان اور بھارت کے صحافیوں کے لئے ایک دوسرے کے ہاں سفر کے لئے مشکلات کا اعتراف ہوا تو مجھ بدنصیب کو جو 1984 سے صحافتی ذمہ داریوں کے سبب کئی بار بھارت کے سفر پر مجبور ہوا”داغِ دل“ یاد آنا شروع ہوگئے۔ اُن کے وعدے نے مگر ”دیکھے ہیں بہت ہم نے….“ والی کیفیت کے علاوہ کوئی اور جذبہ دل میں بیدار ہی نہ ہونے دیا۔
دربار کرتارپور تک رسائی کی بابت ہماری پیش کش کو بھارتی وزارتِ خارجہ کے بابو اور وہاں کی قومی سلامتی کے بارے میں متفکر ادارے کس انداز میں لے رہے ہیں اس کا ذکر ایک تفصیلی کالم کا تقاضہ کرتا ہے۔ میں اس موضوع کو کسی اور دن کے لئے چھوڑ دیتا ہوں۔
فی الوقت فواد چودھری صاحب کے اس دعوے پر توجہ دینا ہوگی کہ نواز شریف کی طرح تحریک انصاف کی جانب سے بھارت میں ان کے یار ٹھہرائے نریندر مودی کا بھی اب ”پانامہ“ ہوگیا ہے۔ جس ”پانامہ“ کا ذکر ہمارے وزیر اطلاعات نے کیا وہ بھارت کی جانب سے فرانس سے خریدے رافیل طیاروں کی ڈیل کے بارے میں ہوئے ”انکشافات“ ہیں۔ سابق فرانسیسی صدر نے ان کی بھرپور اندا زمیں تصدیق کردی ہے۔
بھارت تاریخی طورپر خود کو ”غیر جانب دار“ کہلانے کی وجہ سے اپنی افواج کے لئے جدید ترین اسلحہ بنیادی طورپر ماضی کے سوویت یونین سے لیتا رہا ہے۔ روس کے بنائے مگ طیاروں پر مکمل انحصار نے اسے پاکستان کے مقابلے میں لیکن تھوڑا غیر محفوظ رکھا جس کی ایئرفورس جدید ترین ٹیکنالوجی والے امریکی F-16طیارے استعمال کررہی تھی۔ اپنے جنگی سامان میں ورائٹی ڈالنے کی خاطر اس نے فرانس سے رجوع کیا جو امریکہ کے مقابلے میں اپنی خودمختاری کے اظہار کو ہمیشہ بے چین رہتا ہے۔
فرانس نے اب رافیل جیسا جدید ترین طیارہ بھی تیار کرلیا ہے۔ بھارت 8ارب ڈالر کی خطیر رقم کے استعمال سے اس کی ایک بہت بڑی کھیپ حاصل کرنے کا معاہدہ کرچکا ہے۔ یہ معاہدہ حکومتوں کے درمیان تھا۔ فرانس کی Dassaultکمپنی بھارتی سرکار کی چلائی ہندوستان ایروناٹیکس کمپنی کے ساتھ مل کر ان طیاروں کی ایک مو¿ثر تعداد بھارت ہی میں تیار کرنے پر آمادہ ہوئی تاکہ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کا بندوبست بھی ہوسکے۔
2013میں نریندرمودی بھارتی وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد مگر جب پیرس گئے تو فیصلہ ہوا کہ بھارت میں یہ طیارے وہاں کی ایئرفورس کی ایک کمپنی کے چلائے کارخانوں کے بجائے امبانی گروپ کی فیکٹریوں میں تیار ہوں گے۔
امبانی ایک بہت بڑا کاروباری خاندان ہے۔ اس کے بانی کے دیہانت کے بعد اس کے دوبیٹوں میں وراثت کا جھگڑا ہوا۔ دونوں نے ریلائنس کمپنی کے تحت چلائے دھندے آپس میں بانٹ لئے۔بڑے بھائی انیل نے مودی سرکار سے دوستی گانٹھی اور اپنی کمپنی کے لئے رافیل طیاروں کی بھارت میں تیاری کا ٹھیکہ حاصل کرلیا۔ سکینڈل یہ بھی ہے کہ سیٹھ انیل نے جب یہ ٹھیکہ حاصل کیا تو اس کا گروپ کروڑوں کا مقروض ہوچکا تھا۔ کئی لوگوں کو بلکہ خدشہ تھا کہ وہ دیوالیے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مودی جی نے گویا اپنے متر کو ایک حوالے سے ازسرنو احیاءکے امکانات فراہم کر دیئے اگرچہ اسکے چلائے Relianceگروپ کے پاس جنگی طیارے تیار کرنے کا کوئی تجربہ ہی نہیں تھا۔بھارتی ایئرفورس کی ذیلی کمپنی سے سیٹھ امبانی کو منتقل ہوا سودا جب اسکینڈل کی صورت میڈیا میںاچھلا تو مودی سرکار نے اسے اپنی روایتی Managementسے دبادیا۔
چند ہفتے قبل مگر سابق فرانسیسی صدر نے مشہور NDTVکو دئیے ایک انٹرویو میں بتادیا کہ رافیل طیاروں کی ایک کھیپ کو بھارت میں تیار کرنے کے لئے بھارتی ایئرفورس کی ذیلی کمپنی کے بجائے سیٹھ امبانی کے چلائے کارخانے کا انتخاب مودی کے دورئہ پیرس کے دوران بھارتی وزیر اعظم کے ایماءپر ہوا تھا۔ فرانسیسی صدر کے اس انٹرویو کے بعد سے راہول گاندھی نے ”مودی چور ہے“ کا نعرہ لگانا شروع کردیا۔ وہاں کے میڈیا میںاس موضوع پر کافی رونق لگی ہوئی ہے۔
بھارتی سیاست پہ ذرا نظر رکھتے ہوئے البتہ میں یہ دعویٰ کرنے پر مجبور ہوں کہ ”رافیل سکینڈل“کا انجام بھی”بوفورسیکنڈل“ جیسا ہوگا جس کی دہائی ہم 90کی دہائی سے مسلسل سنے چلے جارہے ہیں۔ اس سکینڈل کا ذمہ دار راجیوگاندھی اور اس کے خاندان کو ٹھہرایا گیا تھا۔بوفورسکینڈل سے جڑی تمام تر کہانیوں کے باوجود مگر کانگریس کے نرسہما راﺅ اور من موہن سنگھ وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہوئے اور دونوں کی حکومتیں کئی برسوں تک دلّی میں سرکار چلاتی رہیں۔
نریندر مودی کو آئندہ انتخابا ت میں اصل دقت ”نوٹ بندی“ کی وجہ سے پیش آئے گی۔اس نے پرانے کرنسی نوٹوں کی یکمشت تنسیخ کے بعد نئے نوٹوں کے اجراءسے محکمہ انکم ٹیکس سے چھپائے ”کالے دھندے“ کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔”نوٹ بندی“ کی وجہ سے بالآخر جو رقم بھارتی خزانے میں جمع ہوئی وہ مگر اس خرچ کو بھی پورا نہ کرسکی جو نئے نوٹ چھاپنے پر ہوا تھا۔ قومی خزانے میں ”کالادھندا“ واپس تو نہ آیا مگر بھارتی سرمایہ دار جنہیں مودی سرکار سے بہت امیدیں تھیں فوفزدہ ہوگئے۔ انہوں نے نئے کاروبار متعارف کروانے میں ہچکچاہٹ دکھانا شروع کردی۔ شہروں اور قصبات کے بنیے اور آڑھتی بھی ”نوٹ بندی“ سے چراغ پا ہوگئے حالانکہ یہ بنیا ہی بھارتیہ جن سنگھ اور اس کے نئے روپ BJPکا اصل سرپرست رہا ہے۔ ہندوانتہاءپسندوں کی مالی صورت میں ”سیوا“ بھی یہ ہی طبقہ کرتا ہے۔
نریندر مودی آئندہ انتخابات کے بارے میں درحقیقت ”نوٹ بندی“ کے منفی اثرات کی وجہ سے خائف ہے۔ ”رافیل سکینڈل“ نے اسے ہرگز پریشان نہیں کیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے اجراءکو راضی وہ ہرگز صرف اس سکینڈل کی وجہ سے نہیں ہورہا۔
”نوٹ بندی“ بھارت کا ایک اہم مگر داخلی مسئلہ ہے۔نریندرمودی پاکستان سے فاصلہ صرف اسی کی وجہ سے نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر میں قابومیں نہ آنے والی صورتِ حال کی وجہ سے بھی برقرار رکھنے کو مجبور ہے۔ داخلی وجوہات سے کہیں زیادہ اہم مگر خارجی وجوہات ہیں۔ اس ضمن میں ٹرمپ انتظامیہ کی”پاکستان سے محبت“ کو نظر میں رکھنا ہوگا۔ چند ٹھوس وجوہات کا تعلق سعودی عرب اور ایران کے مابین جاری Proxy Warسے بھی ہے۔ چین کے پاکستان کےساتھ تعلقات اور CPECاپنی جگہ پہلے ہی سے موجود ہیں۔
”رافیل“ کو مودی کا ”پانامہ“ سمجھنے سے لہٰذا گریز کریں اور پاک-بھارت تعلقات کا زیادہ گہرائی میں جاکر جائزہ لیں۔ امید ہے کہ فواد چودھری صاحب کا متحرک ذہن اس ضمن میں ہماری مزید رہ نمائی فرمائے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ