کیا شاعرانہ نام ہے’’شہر آرزو‘‘۔ جیسے کسی شعری مجموعے، ناول یا افسانوں کی کتاب کا نام ہو لیکن یہ اخباری کالموں کا انتخاب ہے۔ اور کالم لکھنے والے ہیں زمان خاں۔ ہمارے جاننے والوں میں دو شخصیتیں ہی ایسی ہیں جو اپنی نوکیلی مونچھوں کے لیے مشہور ہیں۔ ان میں ایک ہیں الطاف احمد قریشی اور دوسرے زمان خاں۔ دونوں ہی بائیں بازو کی سیاست کے سرخیل ہیں۔ اب اگر الطاف احمد قریشی کی ایک اور پہچان ان کا آسمان توڑ قہقہہ ہے تو زمان خاں کی طنزیہ مسکراہٹ اور لگی لپٹی رکھے بغیر دل کی بات زبان پر لانے کی عادت ہے۔ وہ منہ دیکھے بات کرنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ انہیں جو کہنا ہوتا ہے کسی رو رعایت کے بغیر کہہ دیتے ہیں۔ ہم نے ان سے گزارش بھی کی کہ اتنا سچ بولنا بھی اچھا نہیں ہوتا اور بزرگوں کی یہ بات بھی پلے باندھنا ضروری ہے کہ’’دروغ مصلحت آمیز بہ از راست فتنہ انگیز‘‘۔ مگر وہ فتنہ انگیزی سے باز نہیں آتے۔ اب چاہے وہ کسی محفل میں ہوں یا کالم لکھ رہے ہوں، بات وہی کریں گے جو کرنا چاہتے ہوں۔ ان کی رعب دار مونچھوں اور بے باک اور نڈر طبیعت کی وجہ سے ہی ہمیں اس کتاب کا شاعرانہ نام دیکھ کر حیرت ہوئی۔ لیکن کتاب کا تعارف پڑھنے کے بعد انکشاف ہوا کہ یہ نام بائیں بازو کے نامور دانشور اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ’’ مطالعۂ پاکستان‘‘ کے سربراہ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے رکھا ہے۔ سید جعفر احمد جتنا نرم و ملائم مزاج اور دھیمی طبیعت رکھتے ہیں اور وہ جتنے نستعلیق انسان ہیں، اسی حساب سے انہوں نے یہ نام رکھا ہے۔ زمان خاں کے کالموں کا انتخاب بھی انہوں نے ہی کیا ہے۔ ظاہر ہے انہوں نے سوچ سمجھ کر ہی یہ نام رکھا ہو گا۔ آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ سید جعفر احمد نے اپنی تحریروں اور اپنے شعبے کی مطبوعات کے ذریعہ پاکستانی معاشرے میں روشن خیالی اور خرد افروزی کی ترویج کے لیے جتنا کام کیا ہے وہ پاکستان کی کسی اور یونیورسٹی نے نہیں کیا۔ یہ بات ہم بلا خوف تردید کہہ رہے ہیں۔
ہاں، تو زمان خاں کون ہیں؟ یہ بھی سید جعفر احمد کی زبانی ہی پڑھ لیجئے۔ ’’وہ (زمان خاں) زمانہ طالب علمی ہی سے اپنے سماج کو سدھارنے کی جدوجہد کا حصہ بن گئے تھے۔ 1960 کے عشرے میں جبکہ وہ طالب علم تھے انہوں نے نیشنل اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے تعلیمی نظام کو عوام کی اکثریت کی خواہشات اور ان کے مفادات سے ہم آہنگ کرنے اور طالب علموں میں سماجی شعور پروان چڑھانے کی جدوجہد شروع کی۔ یہ زمانہ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بہت سے یورپی ممالک اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بھی بغاوت کا زمانہ تھا۔ عالم گیر احتجاج کی اس فضا میں پاکستان، جو خود ایک آمریت کے تجربے سے گزر رہا تھا، کیونکر محفوظ رہ سکتا تھا۔ سو ہمارے یہاں بھی ریاست کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف ایک بڑی تحریک کی بنیاد پڑی۔ اس تحریک کا ایک عالمی زاویہ بھی تھا چنانچہ ویت نام ہمارا بھی موضوع قرار پایا۔ اس زمانے میں طالب علموں کی اس تحریک میں جن لوگوں نے بہت سرگرم کردار ادا کیا ان میں زمان خاں بھی شامل تھے۔ طالب علمی کا یہ دور ختم ہوا اور وہ پولیٹیکل سائنس میں ایم اے اور بعد ازاں ایل ایل بی کر کے فارغ ہوئے تو وکالت کا پیشہ ان کا منتظر تھا۔ انہوں نے وکالت کے ساتھ ساتھ سیاسی جدوجہد کا راستہ بھی اختیار کیا۔ چنانچہ وہ لیبر ایکشن کمیٹی کے بانی اراکین میں شامل رہے۔ وکالت اور محنت کشوں کے حقوق کے درمیان جو قریبی تعلق پایا جاتا ہے اس کا پرتو زمان خاں کی سرگرمیوں میں بھی نظر آتا ہے۔ اس دوران انہوں نے مزدور کسان پارٹی سے بھی تعلق استوار کر لیا۔ وہ اس جماعت کی سنٹرل کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ پارٹی سے ان کا تعلق 1973سے1986 تک قائم رہا۔ 1986میں وہ عوامی نیشنل پارٹی میں شامل ہوئے اور1991تک شامل رہے۔ اے این پی میں بھی وہ سنٹرل کمیٹی کے رکن رہے۔ 1983 میں وہ حزب اختلاف کی تحریک بحالی ٔ جمہوریت میں شامل تھے۔ جنرل ضیا کی فوجی آمریت کے خلاف چلنے والی اس تحریک میں گرفتار شدگان کو سخت سزائیں دی گئیں۔ زمان خاں کے حصے میں بھی ایک سال کی قید اور پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا آئی۔ بعد ازاں خاں صاحب نے صحافت کی وادی کا رخ کیا۔ انگریزی اخبارات ’’دی مسلم‘‘ فرنٹیر پوسٹ اور نیشن سے ہوتے ہوئے وہ روزنامہ ’’آجکل‘‘ تک پہنچے، جس میں انہوں نے کالم نگاری میں اپنی شناخت بنائی۔ ان کے کالم زیادہ تر ان سماجی مسائل اور بیماریوں کے پس منظر میں لکھے گئے جن سے ہمارا معاشرہ دوچار ہے۔ زمان خاں صاحب اگر اور لوگوں کے مقابلے میں ان مسائل سے زیادہ ہی ادراک کے حامل نظر آتے ہیں تو اس کی وجہ سیاست اور وکالت سے تعلق کے علاوہ ہیومن رائٹس کمیشن سے ان کی طویل وابستگی بھی ہے۔‘‘
یہ تو زمان خاں کا وہ تعارف ہے جو سید جعفر احمد نے کرایا ہے۔ ہمارا تعارف تو زمان خاں سے ہیومن رائٹس کمیشن کے زمانے میں ہی ہوا۔ کمیشن کے دفتر میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر شفاف شیشوں میں گھرا ہوا جو کمرہ ہے، زمان خاں اس میں سامنے بیٹھے نظر آتے تھے۔ ہم جب بھی وہاں گئے زمان خاں کو کمپیوٹر کی اسکرین پر نظریں جمائے ہی دیکھا۔ وہ اس اسکرین پر دنیا بھر کے اخباروں میں چھپنے والی خبروں اور مضامین کے ساتھ اپنا رابطہ رکھتے اور اس میں اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو بھی شریک کرتے۔ اسی زمانے میں ہفتہ وار نشستوں اور محفلوں میں بھی ان سے رابطہ قائم رہا اور وہیں ہمیں ان کی صاف گوئی کا تجربہ ہوا۔ اب وہ لاہور چھوڑ کر فیصل آباد جا چکے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اب وہ فیصل آباد میں اپنی بے باکی اور صاف گوئی کا تجربہ کرتے ہوں گے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ