پرانے پاکستان میں نئی حکومت گوناگوں مشکلات کا شکار ہے۔نیاپاکستان تواللہ جانے کب بنتا ہے۔ بنتا بھی ہے یا پرانے پاکستان کی تزئین و آرائش کرتے کرتے اس کی شکل ہی ناقابل شناخت بنا کرچہرہ ہی مسخ کر دیا جاتا ہے(خاکم بدہن) ۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، باتوں کے شیر ہیں اور کام کے زیر ۔ ابھی تک تو تحریک انصاف والوں کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ وہ اپوزیشن میں ہیں یا حکومت میں۔سب کو ” خان صاحب کے وژن “ کا ایک ہی سبق رٹا دیا گیا ہے۔ خان صاحب کا وژن کیا ہے۔؟اگر کچھ ہے تو اس پر عملدرآمد کیسے ممکن بنانا ہے۔؟اس کی کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی اب تک تو سامنے نہیں آئی ۔خواہشات بلند ہیں۔ چلیئے مان لیتے کہ ارادے بھی مضبوط ہیں۔کچھ کر گزرنے کا عزم بھی ہے ۔عمران خان کی دیانت داری اور ایمان داری پر بھی کوئی سوال نہیں۔مگر یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ یہ سب کیسے ہو گا اور کب ہو گا۔؟سابقہ حکومت کی کرپشن کی داستانیں سن سن کر کان پک گئے ہیں۔جانے والی حکومت کو ہر برائی کا ذمہ دار تو ہر آنے والی حکومت ہمیشہ ہی ٹھہراتی ہے ۔مگر حکومتی ترجمان ابھی تک سابقہ حکومت کی برائیاں گنوانے میں مصروف ہیں۔جبکہ لوگ فوری ریلیف چاہتے ہیں۔ ابھی تو نئی حکومت کو کچھ نئے اور بہت سے پرانے مسائل کا سامنا ہے۔پرانے مسائل کو تو وراثتی مسائل کہا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر مجھے کوئی ایسی حکومت بتا دیجئے جس نے اقتدار سنبھال کر کہا ہو الحمدوللہ سرکار کے خزانے میں بہت کچھ موجود ہے اور ملک کو مالی طور پر کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔جانے والی حکومت ہمیشہ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں عوام کو اقتصادی و معاشی ترقی اور ملک کو اپنے پاﺅں پر کھڑا ہوا چھوڑ کر جانے کی نوید سنا رہی ہوتی ہے اور اس کی جگہ اقتدار سنبھالنے والی حکومت اپنا حلف اٹھانے کے بعد جو پہلا بیان جاری کرتی ہے وہ کم و بیش ایک جیسے الفاظ میں کچھ یوں ہوتا ہے کہ” ملکی خزانہ بالکل خالی ہے۔ ملک معاشی طور پر بحران اور بہت مشکلات کا شکار ہے اور بس دیوالیہ ہوا چاہتا ہے “۔میری یادادشت میں تو نہیں کہ کسی بھی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کبھی کوئی اچھی خبر سنائی ہو۔ سرائیکی کی ایک پرانی کہاوت ہے ” کویلیاں دے گھروں متام کڈاہیں نی مکدا “( کیڑیوں کے گھر سے آ ہ و زاری کبھی ختم نہیں ہوتی)۔ہمارے ہاں ہمیشہ ایسی ہی صورت حال رہتی ہے۔ملک ہمیشہ نازک دور سے گزر رہا ہوتا ہے۔ معیشت جان کنی کی حالت میں پائی جاتی ہے۔ ملک اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہوتا ہے۔وغیرہ وغیرہ۔۔حکومت بدلتی ہے۔ چند روز عوام نئی امنگوں اور امیدوں کے سہارے گزارتے ہیں۔ مگر چند ہی روز بعد نئی حکومت وہی پرانی ریکارڈ شدہ کیسٹ چلا دیتی ہے۔جو اوپر بیان کی گئی ہے۔موجودہ حکمران جماعت ہر معاملے میں کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی خوبصور ت ٹھنڈی سڑک پر سہانے سفر کا خواب دیکھتے دیکھتے اچانک خوابوں کے جزیرے سے نکل کر حقیقت میں اسی سڑک پر گامزن ہونے کا موقع ملا ہے اور ہر قدم پر سفر کی صعوبتوں اور سڑک کی خوبصورتی اور ٹھنڈک کے باوجود اس پر چلنے میں ر کاوٹوں اور ناہمواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ خوابوں کی دنیا میں رہنے والوں کے قدم حقیقت کی سر زمین پر قدم پڑتے ہی ڈگمگاتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔ خان صاحب نے قوم سے سو دن مانگے تھے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں سن سن کر عوام نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ پرانا پاکستان ہی اچھا تھا ۔اس اضافے پر ہمارے قابل ترین وزیر خزانہ اسد عمر ، وزیر خزانہ کا حلف اٹھانے سے پہلے جن کی معاشی پٹاری میں خرابی و بربادی کے پھنکارتے ہوئے ناگ کی ڈسی ہوئی معیشت کے لیئے ہر قسم کا تریاق موجود تھا۔ اب ان کی اس معاشی پٹاری سے بھی سابقہ ادوار کی طرح مہنگائی کے سنپولے نکل رہے ہیں۔ ہمارے قابل وزیر خزانہ اسمبلی کے فلورپر اپنی تقریر میں، میاں شہباز شریف کی تقریر پر جوابی وار کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ہم نے عوام پر مہنگائی کا کوئی بوجھ نہیں ڈالا ۔پوچھنا یہ تھا کہ اضافی قیمتوں کی وجہ سے ہونے والی مہنگائی کا بوجھ سرکاری بیت المال برداشت کرے گا؟؟؟
فیس بک کمینٹ