برائے مہربانی مجھ سے یہ سوال نہ پوچھئے گا کہ میں یہ بات بہت شدت کے ساتھ یاد کیوں دلانا چاہ رہا ہوں۔ نام نہاد ”آزادی ء صحافت“ کی موجودہ بہار میں بھی ہر بات کھل کر بیان نہیں کی جاسکتی۔ ”اُس گلی“ کے لوگ بہت ”نمانے“ ہیں۔دام میں پھنسا لیتے ہیں۔ طوطے کے لئے مناسب یہی ہے کہ پنجرے میں قید رہے۔ اپنے مالک کی دی ہوئی چوری کھائے۔ وہ اسے ”میاں مٹھو چوری کھانی او“کہہ کر ”پچکارتا“ رہے۔پنجرہ اچانک کھل گیا اور ”طوطیا من موتیا“ اُس گلی کی طرف پرواز کرگیا تو کسی نہ کسی پھندے کی گرفت میں آجائے گا۔
بات بہرحال آپ کو یاد یہ دلانی ہے کہ آرمی چیف خواہ وہ کوئی بھی ہو بہت بااختیار اور طاقتور ہوتا ہے۔ اس عہدے کی اصل بنیاد ہیCommand and Controlپر کامل گرفت کا تصور ہے۔
حمید گل مرحوم بہت مقبول جرنیل تھے۔ عوام ہی نہیں ”ادارے“ میں بھی ان کے بے پناہ چاہنے والے تھے۔ ISIکی سربراہی کے بعد ملتان جیسی زبردست اور شاندار مانی کور کے سربراہ مقرر ہوئے۔ بہت لوگوں کو قوی امید تھی کہ بالآخر آرمی چیف بنائے جائیں گے۔
نواز شریف اور غلام اسحاق خان نے مگر اسلم بیگ کے بعد انتخاب آصف نواز جنجوعہ مرحوم کاکیا۔ گل صاحب کو یہ انتخاب پسند نہ آیا۔ شاید کچھ لوگوں سے اپنی خفگی کا اظہار بھی کردیا ہوگا۔ جنرل جنجوعہ تک بات پہنچ گئی۔ حکم ہوا کہ کور چھوڑ کر ٹیکسلا کے اسلحہ ساز کارخانے کا چارج لینے کی رپورٹ دیں۔حمید گل مرحوم ہچکچائے۔ آصف نواز ترکی کے دورے پر تھے۔ وہیں سے ایک حکم جاری ہوا اور گل صاحب جیسے Legendaryافسر کا فوجی کیرئیر ختم ہوگیا۔
درازقد،وجیہہ اور منہ پھٹ جنرل آصف نوازجنجوعہ بڑی آن بان والے چیف تھے۔ زندگی مگر ان سے وفانہ کرپائی۔ دل کے دورے کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے تو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے جنرل وحید کاکڑ کو آرمی چیف تعینات کردیا۔ جنرل وحید کی تعیناتی سے قبل ”ادارے“ کے کئی سرکردہ افراد مجھے کمال اعتماد سے بتاتے رہے کہ آصف نواز کے جانشین صرف واہ کے ایک مشہور خاندان کے جنرل فرخ ہوسکتے ہیں جو آصف نواز مرحوم کے چیف آف سٹاف ہوا کرتے تھے۔ انتخاب مگر کاکڑ صاحب کا ہوا جن کا ہم صحافیوں نے کبھی ذکر ہی نہیں سنا تھا۔
کاکڑ صاحب درمیانے قد کے ایک Lie Lowشخص تھے۔ اخباروں میں اپنے بیانات اور تصاویر چھپوانے کا انہیں ہرگز کوئی شوق نہیں تھا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے ”خاندانی فوجی“ اکثر مجھے یہ بتاتے کہ نواز شریف کے ساتھ تخت یا تختہ والی جنگ میں الجھے اسحاق خان نے کاکڑ صاحب کا انتخاب فقط نسلی اور لسانی وجوہات کی بنا پر کیا ہے۔ مبینہ طورپر ”بابے کے لگائے“ اور اس کے وفادار سمجھے جانے والے کاکڑ صاحب نے مگر بالآخر 1993ءکے سیاسی تناﺅ سے جان چھڑانے کے لئے نام نہاد ”کاکڑ فارمولہ“ استعمال کیا۔ صدر غلام اسحاق خان وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔ معین قریشی امریکہ سے بلاکر نگران وزیر اعظم لگائے گئے۔ نئے انتخابات ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہوگئیں۔ مسلم لیگ کے کئی سرکردہ افراد سرگوشیوں میں جنرل کاکڑ کو ”غیر ملکی طاقتوں کے ایما پر بے نظیر کو دوبارہ اقتدارمیں لانے“ کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ اقتدار میں بھی میں بہت متحرک رپورٹر ہوا کرتا تھا۔ اس دور کے اہم ترین وزراءاور اعلیٰ سرکاری افسر آج بھی کسی محفل میں ملتے ہیں تو برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ”اپنے ادارے“ کے لئے جنرل کاکڑ نے محترمہ بے نظیر کی دوسری حکومت سے ہر بات منوائی۔ وہ کئی اعتبار سے جنرل اسلم بیگ صاحب سے بھی کہیں زیادہ بااثر ثابت ہوئے۔
ا ن کی ”اثرانگیزی“ کے باوجود محترمہ کی بہت خواہش تھی کہ جنرل کاکڑ اپنی میعادِ مدت میں توسیع قبو ل کرلیں۔ کاکڑ صاحب نے مگر مان کر نہ دیا۔ وقتِ معینہ پر ریٹائر ہوئے اور جاتے ہوئے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ جنرل کرامت ان کے جانشین مقرر ہوں۔
احتیاطاََ یہ حقیقت یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے چند ہی دنوں بعد جنرل کاکڑنے انٹیلی جنس کے حوالوں سے ایک بہت ہی ذہین اور بااثر مانے جنرل اسد درانی کو ان کے عہدے سے فارغ کردیا تھا۔وجوہات اس کی فی الوقت بیان کرنا ضروری نہیں۔
عرض مجھے صرف یہ کرنا ہے کہ آرمی چیف،آرمی چیف ہوتا ہے۔ اپنے ”ادارے“ کے بارے میں کسی بھی فیصلے کا حتمی اختیارفقط اس کے پاس ہوتا ہے۔ Whatsappگروپس کے ذریعے پھیلائی کہانیاں آرمی چیف کو وہ فیصلے لینے پرہرگز مجبور نہیں کرسکتیں۔ جسے وہ اپنے ”ادارے“ کے مفاد میں مناسب نہ سمجھتے ہوں۔ تحمل وبرداشت اور وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اپنائی ہوئی لچک کمزوری نہیں حکمت کہلاتی ہے اور حکمت کو آزمائش میں نہیں ڈالا کرتے۔ اپنی بات یہاں ختم کرنے کے بعد میں اس کالم کو اپنا لکھا مختصر ترین کالم شمار کروانا چاہتا ہوں۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ