کئی برس وطن سے دور رہنے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اپریل 1986میں وطن لوٹیں تو میں ان دنوں اسلام آباد سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے ”دی مسلم“ کا ایک مشقتی رپورٹر تھا۔ معقول TA/DAکے بغیر میں محترمہ کی لاہور آمد کے بعد سے پنجاب کے ہر شہر اور قصبے میں جانے والے ان کے قافلے کی ہمراہی کو تیار ہوگیا۔ میری ذمہ داری 10اپریل سے 3 مئی تک پھیلی ہوئی تھی۔ 3 مئی کو محترمہ نے ملتان میں قیام کے بعد بذریعہ جہاز کراچی روانہ ہونا تھا اور جہاز میں ان کا ساتھ کامران خان نے دیا تھا جو ان دنوں اسی اخبار کے بہت ہی ابھرتے ہوئے رپورٹر تھے۔ 10اپریل 1986سے اس برس کے 3 مئی تک ہوئے اس سفر سے جڑی کئی کہانیاں ہیں جو ذہن میں محفوظ ہیں۔ انہیں بیان کرنے کا مناسب موقع نہیں ملتا۔اس دور سے جڑی مگرایک یادکسی فلم کی ریل کی طرح ذہن میں چل رہی ہے۔ اسے لکھے بغیر چین نہیں آئے گا۔ ہوا یوں کہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ان کا جو جلسہ ہونا تھا اس میں شمولیت کے لئے صحافیوں کے داخلے کے لئے ایک مخصوص راہ گزر بنائی گئی تھی۔ اس راہ گزر کا مکمل کنٹرول جیالوں کے پاس تھا اور ان کی اکثریت صحافیوں کو پہچانتی نہیں تھی۔ اپنی کمیونٹی کی آسانی کے لئے میں خدائی خدمت گار کی صورت جیالوں کا مدد گار بن گیا۔ ڈیسک پر کام کرنے والی کئی خواتین صحافیوں کو جنہیں بی بی کو دیکھنے کا بہت اشتیاق تھا میری خدمت گاری کی وجہ سے آسانی مہیا ہو گئی۔ میں جب ”گیٹ کیپری“ کے فرائض میں جیالوں کی دھکم پیل سہتا مصروف تھا تو اچانک پیپلز پارٹی کے ایک رہ نما تشریف لائے۔انہوں نے میرا ہاتھ تھاما اور لیاقت باغ سے ملحق سڑک پر لے آئے۔ وہاں بسوں کی ایک لمبی قطار تھی جنہیں پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہ نما کارکنوں سے بھرکر لائے تھے۔ جس رہ نما نے میرا ہاتھ پکڑا ان کا نام ملک حاکمین خان تھا۔ وہ اٹک سے تعلق رکھنے والے ایک نامی گرامی جیالے تھے۔ ضیاءالحق کے دور میں کئی بار جیل گئے۔ بدترین تشدد بھی بھگتا۔ کئی بار گرفتاری سے بچنے کے لئے زیرزمین بھی رہے۔ میں نے ان کی روپوشی کے دوران بھی ان سے کئی ملاقاتیں کی تھیں۔ ملک صاحب ایک بس سے شرو ع ہوئے اور کم ازکم 20 سے زیادہ تک بلند آواز میں ان کی گنتی کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ بالآخر میں نے انہیں اپنے ”فرائض“ یاد دلائے وہ ایک مقام پر ر±کے اور پوٹھوہاری زبان میں مجھ سے وعدہ لیا کہ میں اس جلسے کی روداد بیان کرتے ہوئے نمایاںطور پر لکھوں گا کہ اٹک کے ملک حاکمین خان کے لائے حاضرین کی تعداد اس جلسے میں سب سے زیادہ،نمایاں اور پرجوش تھی۔ میں نے جان چھڑانے کے لئے وعدہ کرلیا۔ انہوں نے مگر اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور بڑی درد مندی سے کہا کہ ”اسے اپنی ماں کا ہاتھ سمجھو اور قسم کھاﺅکہ یہ سب لکھو گے“۔میرے پاس اپنا وعدہ دہرانے کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہ رہا۔جلسے سے لوٹ کر ٹائپ رائٹر پر اس جلسے کی روداد لکھنے بیٹھا تو یہ وعدہ نبھانے کی کوئی صورت بن نہیں پائی۔ ڈیسک والے بے تابی سے میری کاپی مکمل کرنے کا انتظار کر رہے تھے۔ کہانی لکھ کر جان چھڑائی۔ میری کہانی چھپنے کے دن محترمہ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنا تھا۔ اسے Coverکرنے پہنچا تو صحافیوں کا استقبال کرنے والوں میں ملک حاکمین نمایاں تھے۔ ان کی صورت دیکھتے ہی میں گھبراگیا۔ ان سے کیا وعدہ یاد آگیا۔ مجھے دیکھتے ہی مگر وہ بہت گرمجوشی سے میری جانب بڑھے۔مجھے گلے لگاکر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بی بی صبح سے انہیں کئی بار ”ویل ڈن ملک حاکمین“ کہہ چکی ہیں۔ ان کے سامنے رکھی میز پر صرف وہ اخبار رکھا تھا جس کے لئے میں رپورٹرنگ کرتا تھا۔ یقیناً انہیں ”تمہاری لکھی خبرپڑھ کر پتہ چلاہے کہ میں نے راولپنڈی کے جلسے کو کامیاب بنانے کے لئے کتنی جان ماری تھی۔ میں تاحیات تمہارا مشکور رہوں گا“۔حقیقت یہ بھی رہی کہ میرے ساتھ اپنی آخری ملاقات ہونے تک (جو آج سے کئی برس قبل ہوئی تھی) وہ میرے ”وعدہ نبھانے“ والی ”خوبی“ کو یاد کرتے ہوئے میرا احترام کرتے رہے۔ ان کے خلوص کی شدت نے مجھے یہ جرات ہی نہ دی کہ میں وضاحت کردوں۔ ان کا دل توڑنے کے خوف سے گھبراتا رہا۔ملک حاکمین خان کے انتقال کی خبر آئی تو لیاقت باغ کے باہر ہوا ”وعدہ“ یاد آتا رہا۔ دل میں بہت ملال رہا کہ اب ایسے سادہ اور پرخلوص سیاست دان دیکھنے کو نہیں ملتے۔ صحافیوں کی بھی اس معاشرے میں کوئی عزت باقی نہیں رہی۔ سب کو ”لفافہ“ ٹھہرادیا گیا ہے۔ کئی لوگوں پر یہ تہمت بھی ہے کہ وہ آج کی 5th Generation Warمیں دانستہ یا نادانستہ دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ٹی وی سکرین پر میں کئی ہفتوں سے نظر نہیں آیا مگر صحافیوں کی وہ ”فہرست“ دوبارہ گردش میں ہے جس میں مجھ سمیت کئی لوگوں کے نام شامل ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے ملک ریاض سے گاڑیاں اور بھاری رقوم وصول کی ہیں۔ میری بیوی کو ترکے میں زمین کا ٹکڑا ملا ہے اس پر مکان کی تعمیر مکمل کرنے میں دو سال سے میں اور میری بیوی دن رات ایک کئے ہوئے ہیں مگر…شاید بلھے شاہ کے بیان کردہ ”شک شبے دا ویلے“ کی اذیت سہتے ہوئے مجھے ملک حاکمین کی موت کی خبر نے مزید ادا س کیا ہے۔1980کی پوری دہائی یاد آنا شروع ہوگئی ہے جب سیاست اور صحافت پیشے نہیں تھے۔صرف اور صرف رومانس تھے۔ملک حاکمین خان 1980کی دہائی سے جڑے رومانس کی ایک بہت بڑی علامت تھے۔ اٹک سے ابھرے تھے۔ خوش حال سیاستدانوں کی طرح ڈیرہ چلانہ پائے۔تھانہ کچہری کی مدد سے بنائی دھڑے بندی والی کاریگری بھی انہیں نصیب نہ ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پانچ سالوں میں ان کے نام کی البتہ دھوم مچی رہی۔کھر،ملک معراج خالد، حنیف رامے اور صادق قریشی وزارت اعلیٰ کے منصب پر آتے جاتے رہے۔ ان کا ”کلہ“ مضبوط رہا۔پنجاب کے وزیر جیل خانہ جات تھے تو صوبائی اسمبلی میں اعلان کردیا کہ وہ ”صوبے بھر میں جیلوں کا جال بچھا دیں گے“۔ہم میں سے کئی ایک کے ذاتی یا ذہنی حوالوں سے استاد جناب عبدالقادر حسن نے ان کے اس فقرے کو ایک لطیفہ بنادیا۔ یہ فقرہ ان کی ذات سے عمر بھر کے لئے ایک طعنے کی صورت مختص ہوگیا۔ وہ مسکراتے ہوئے برداشت کرتے رہے۔ بہت ہی کم لوگوں کو مگر یاد رہے گاکہ ملک صاحب غالب کی بیان کردہ ”وفاداری بشرطِ استواری“ کی عملی مثال تھے۔ جبر کے بدترین ایام میں بھی انہوں نے پیپلز پارٹی سے وابستگی برقرار رکھی۔ ان کی جماعت پر اس دوران کئی بار اچھے دن بھی آئے۔ ملک صاحب کو مگر اختیار کی وہ قوت نصیب نہ ہوئی جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں چند برس تک میسر رہی تھی۔ ان کا چہرہ آج سے کئی برس قبل ہی ادا س ہوگیا تھا۔ ہماری فرمائش پر وہ اپنی ”روپوشی“ کے ایام کی کہانیاں بھی نہیں دہراتے تھے۔ صرف ایک کتاب لکھی جسے اشاعت کے بعد مجھے بھی بھیجا تھا۔ میں کئی بار چاہنے کے باوجود اس کتاب کے بارے میں لکھ نہیں پایا۔ انہوں نے فرمائش کی نہ گلہ۔شاید احساس ہوچکا تھا کہ ان کا دور ختم ہوا۔ جو زندگی باقی رہ گئی ہے اسے کسی طرح بس گزارلیا جائے۔ ملک صاحب کی طرح جانے کتنے اور سیاسی کارکن ہیں جنہوں نے اچھا وقت بھرپور انداز میں دیکھا۔ مگر اب صرف جی رہے ہیں۔ فقط جینے کا یہ بوجھ شاید1980کی دہائی سے جڑے رومانس کی وجہ سے سینکڑوں سیاسی ، صحافتی اور ادبی مشقتیوں کے دل کو روزانہ اداس سے اداس تر بنارہا ہے۔ ”انشا جی ا±ٹھو اب کوچ کرو…“ کی تمنا کے ساتھ۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ