وسیب کے کروڑوں لوگوں کیلئے روزنامہ 92 نیوز کی یہ خبر خوش آئند ہے کہ ”گورنر پنجاب نے چیئرمین پنجاب پبلک سروس کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ ملتان میں ساﺅتھ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے قیام کے انتظامات کیے جائیں ، ساﺅتھ پنجاب پبلک سروس کمیشن آزادانہ طور پر کام کریگا اورتمام اشتہارات، پرچوں کی تیاری اور چھپائی و دیگر معاملات بھی اس کی ذمہ داری ہوگی۔ ساﺅتھ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے قیام کیلئے مارچ کے تیسرے ہفتے کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔“یہ سرائیکی وسیب کے لوگوں کیلئے ایک اچھی خبر ہے کہ انہی کالموں میں ہم نے وسیب کے لوگوں کیلئے ایک عرصے سے مطالبہ کر رہے تھے کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کو دو حصوں میں تقسیم کر کے سرائیکی وسیب کیلئے پبلک سروس کمیشن علیحدہ کیا جائے۔ صوبے کے ساتھ مرکز کی ملازمتوں ، سی ایس ایس کا بھی الگ ہونا چاہئے، اس کیلئے صوبے کا ہونا ضروری ہے، وسیب کے لوگوں کو صوبہ بھی فوری ملنا چاہئے۔ گزشتہ حکومتوں کے مقابلے میں موجودہ حکومت وسیب کے مسائل پر توجہ دے رہی ہے ، بہاولپور میں کابینہ کا اجلاس اور وہاں جا کر مسائل کے بارے میں جاننا اس سلسلے کی کڑی ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے علاوہ وزیراعظم عمران خان کو بھی وسیب کے مسائل کی طرف توجہ دینا ہوگی کہ ان کا تعلق بھی وسیب سے ہے اور تحریک انصاف نے بھی وسیب کے مسائل کے حل کا وعدہ بھی کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مخدوم شاہ محمود قریشی ، جہانگیر خان ترین، مخدوم خسرو بختیار،ہاشم جواں بخت کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے، ان کو بھی مسائل کی طرف توجہ دینا ہوگی ، جیسا کہ معمولی سا مسئلہ تھا کہ لیکچرر کی اسامیوں میں سرائیکی لیکچرار کی اسامیوں کو نظر انداز کیا گیا ، وزارت خارجہ کی فارن ملازمتوں میں بھی سرائیکی وسیب نظر انداز ہے، خصوصی طورپر مخدوم شاہ محمود قریشی اور اہالیان ملتان کو جاگنا ہوگا۔ میں حکومت کی توجہ کیلئے بتانا چاہتا ہوں کہ ملتان چلڈرن کمپلیکس، فاطمہ جناح ہاﺅسنگ سکیم، ملتان صحافی کالونی ، پی ٹی وی ملتان ہاﺅسنگ کالونی ، پی ٹی وی ملتان سٹوڈیوز ، ملتان نادرن سدرن بائی پاس، ملتان سول ہسپتال، ملتان وویمن یونیورسٹی ، ملتان انجینئرنگ یونیورسٹی ، ملتان برن یونٹ، ملتان کینسر ہسپتال، ملتان کارڈیالوجی فیز ٹو اور بہت سے دوسرے منصوبوں کے ساتھ ساتھ ملتان میٹرو بس فیز ٹو بھی زیر التوا ہیں ، مگر ملتانی قیادت خاموش ہے۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ دو سو سال کی غلامی نے اہل ملتان کی سوچ کو پسماندہ اور غلامانہ کر دیا ہے، حالانکہ ملتان کی عظمت حضرت داتا گنج بخش نے ” لاہور یکے از مضافاتِ ملتان است“ کہہ کر بیان فرمائی ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی خطے کیلئے کہاوتیں اور ” اکھان“ اس تعارف اور اس کی پہچان ہوتی ہے، ملتان کتنا عظیم تھا ،اس بارے یہ چند ایک کہاوتیں ” آگرہ اگر ، دلی مگر ، ملتان سب کا پدر “ یا پھر یہ کہ ” جئیں نہ ڈٹھا ملتان، او نہ ہندو نہ مسلمان “ مزید یہ کہ ” دلی دا تاج اوندا، جیندے ہتھ ملتان “ اور ملتان ماءبہ جنت اعلیٰ برابر است “ ۔ یہ اور اس طرح کی بہت سی کہاوتیں اور اشعار ملتان کی عظمت کی دلیل ہیں، مگر ملتان جب مفتوحہ علاقہ بنتا ہے تو اس کی پہچان ” گرد ، گرما ، گدا و گورستان “ بنا دی جاتی ہے اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ” ملتان آیاں دا ہے ، جائیاں دا نی “ اور پھر یہ بھی کہاوت وجود میں آتی ہے کہ ” ملتان باہر دے اندھیں کوں لبھ پوندے ملتانی سجاکے ر±لدے رہ ویندن “ تو میرا عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ملتان اپنی عظمت رفتہ خود بحال کرے یہ کام کسی اور نے نہیں ، ملتان اور ملتانیوں نے خود کرنا ہے۔ مجھے بھی پچیس سال ملتان میں رہتے ہوئے ہو گئے ہیں ، بہت کچھ لکھتا رہتا ہوں ، لوگوں سے بھی ملتا رہتا ہوں کہ شاید بیداری ہو جائے مگر مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا، یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ میں اہل ملتان کی سوچ کو بدلتے ہوئے حالات اور ترقی کے عالمی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو میرے ہاتھ مایوسی کے سوا کچھ نہیں آتا، ظاہر ہے کہ اس سے مجھے سخت کوفت اور صدمہ ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ کسی خطے کی غربت یا پھر وسیب کے حقوق مانگنے کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے جا کر اسیری کے ایام کاٹنا جرم نہیںٰ لیکن ذہنی پسماندگی اور ذہنی غلامی بہت بڑا جرم ہے۔ اب ہم سرائیکی صوبے کی تحریک کو دیکھتے ہیں کہ رنجیت سنگھ کے دو صدیوں کے قبضے کے بعد پہلا موقع ہے کہ ملتان کی موت نما نیند کے باوجود ملتان کے نصیب جاگ رہے ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک تک کے لوگ سرائیکی صوبے کے ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں وہ صوبہ قبول ہوگا جس کا دارالحکومت ملتان ہو ، سرائیکی وسیب کے مختلف علاقوں میں سرائیکی صوبے کے جلوس نکل رہے ہیں مگر ملتان آج بھی سو رہا ہے۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے عار محسوس نہیں ہو رہی کہ ملتان آج بھی بے ہوش ہے۔ ملتان کو ہم دھندول دھندول کر تھک گئے مگر ملتان کو کوئی پرواہ نہیں ، اسے دو سو سالوں سے بے ہوشی کا ایسا ٹیکہ لگا ہے کہ اس کے جسم کے حصے کاٹے جا رہے ہیں ، اسے کاٹ کاٹ کر ٹنڈا، منڈا اور لولہا لنگڑا بنایا جا رہا ہے پھر بھی اسے پرواہ نہیں۔ مجھے دکھ ہے ، مگر مجھے کہنے دیجئے ملتانی اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ گزشتہ دنوں چوک نواں شہر پر ملتان کے حقوق کیلئے پاکستان سرائیکی پارٹی کی طرف سے سو روزہ یاد دہانی کیمپ لگایا گیا جس میں چند لوگ تھے ، مگر ملتانی کوئی نہ تھا۔ جبکہ اسی راستے سے سینکڑوں گاڑیاں گزر رہی تھیں۔ مجھے کہنے دیجئے کہ مجھے صدمہ ہے ، پانچ سال قبل جب ہم ملتان کے حقوق کیلئے سرائیکی احتجاجی ریلی پر سرائیکی صوبے کے مخالفوں نے وسیب کے نوجوان نصر اللہ کو شہید کر دیا اور ا±لٹا ہم پر دھاوا بول کر ہمارے آدمی گرفتار کر لئے۔ ہم پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ، ہمارے بچوں کی چمڑیاں ادھیڑ دی گئیں لیکن ہمارے ان ملتانی دوستوں نے ہم سے ملنا تو درکنا فون کرنا بھی چھوڑ دیا جو صبح شام ہمارے ساتھ ہوتے تھے اور کچھ تو ایسے دیوانے بھی تھے جو کہتے ہیں کہ اگر ہم جھوک آ کر زیارت نہ کریں تو ہمارا دن بسر نہیں ہوتا۔ سچ پوچھئے یہ لوگ اس وقت تک نہ آئے جب تک ہم پر حکومتی جبر کا عذاب ختم نہ ہوا۔ یہ کہنے کی باتیں نہیں لیکن ہم اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ہمارا ملتان ،اپنی عظمت اور اپنی شان کو پہچانے ، سرائیکی صوبہ ہو یا کوئی اور منصوبہ ، ملتان کیلئے ہے مگر ملتان کے تاجر، سیاستدان اور علماء و مشائخ کو اس کا احساس نہیں۔ پھر اکیلے شاعر ، صحافی یا قلمکار کیا کریں گے ؟ آج ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں لوگ سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں کہ ہمیں دارالحکومت پشاور نہیں ، ملتان چاہئے مگر ملتان خود سویا ہوا ہے۔
(بشکریہ: روز زنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ