شاہزادہ محمد بن سلمان ابھی بھارت نہیں پہنچے تھے تو میں نے اس کالم میں اس Leverageکا تذکرہ کیا تھا جو سعودی عرب کو ان دو ممالک کے باہمی تعلقات کے ضمن میں میسر تھا۔ سوال یہ تھا کہ اس Leverageکو کس صورت استعمال کیا جائے گا۔ سعودی شاہزادے کے دورئہ بھارت کے بعد جاری ہوئے مشترکہ اعلامیہ کو غور سے پڑھنے کے بعد اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بخوبی استعمال ہوا۔
سعودی عرب کے Leverageکو سمجھنے کے لئے محض یہ حقیقت ہی ذہن میں رکھنا کافی نہیں کہ اس وقت تیس لاکھ بھارتی سعودی عرب میں کام کررہے ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں ان بھارتیوں کی اکثریت مزدوری وغیرہ کے بجائے وائٹ کالر نوکریوں پر تعینات ہے۔ وہ بنیادی طورپر بھارتی متوسط طبقے کی نمائندہ ہے اور سالانہ اپنے ملک دس ارب ڈالر کا خطیر زرِ مبادلہ بھیجتی ہے۔ بھارت ان کے مفادات کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنے کو مجبور ہے۔
بھارت کو چین کے مساوی اقتصادی قوت بن جانے کی لگن بھی ہے۔اس ہدف تک غیرملکی سرمایہ کاری کے بغیر پہنچا ہی نہیں جاسکتا اور کلی اختیار کے حصول کے بعد شاہزادہ محمد بن سلمان خود کو Global Investorsکی صف میں نمایاں کرنا چاہ رہے ہیں۔بھارت کی خواہش ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری اس کے ہاں کریں۔
سعودی Leverageکے حوالے سے مگر اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کے ساتھ اوبامہ کے ہوئے ایٹمی معاہدے کی تنسیخ کے بعد بھارت پر دباؤڈال رہی ہے کہ وہ اس ملک سے اپنی ضرورت کا تیل خریدنا بند کردے۔ اس ضمن میں سعودی عرب سے رجوع کرے۔ فی الوقت اگرچہ بھارت کو جولائی 2019کے اختتام تک ایران سے تیل کی خریداری کے لئے امریکہ نے استثناء دے رکھا ہے۔ یہی سہولت چین کو بھی دی گئی ہے۔
فرض کیا اگر بھارت ایران سے تیل خریدنے پر بضد رہا اور وہاں چاہ بہار جیسے منصوبوں پر سرمایہ کاری کوڈٹا رہا تو امریکی کمپنیوں کے لئے بھارت میں سرمایہ کاری اور اس ملک سے کاروبار کے راستے میں مختلف النوع ’’قانونی مشکلات‘‘ کھڑی ہوجائیں گی۔ جرمنی کی سیمینز کمپنی کو بھی امریکہ میں اپنے کاروبار کو جاری رکھنے کے لئے ایران سے کاروباری تعلقات منقطع کرنا پڑے ہیں۔جبکہ بھارت کے مقابلے میں جرمنی امریکہ کا دوسری جنگ عظیم کے بعد قریب ترین ا تحادی رہا ہے۔ جرمنی کو امریکہ نے ممکنہ ایٹمی حملوں کے خلاف ’’ایٹمی چھتری‘‘ بھی فراہم کررکھی ہے۔
بھارت کے دورے کے بعد شاہزادہ محمد بن سلمان اب چین روانہ ہونے والے ہیں۔ دلی میں اگر سعودی ولی عہد کی مناسب پذیرائی نہ ہوتی تو سرمایہ کاری کا رُخ بھارت کے بجائے کلی طورپر چین کی طرف مڑجاتا۔ بھارت کی یہ خواہش بھی ہے کہ سعودی حکام سے ملاقاتوں کے دوران چین انہیں قائل کرے کہ ایران سے کسی نہ کسی نوعیت کے کاروبار کو جاری رکھنا بھارتی اور چینی معیشتوں کے لئے کیوں ضروری ہے۔
سفارت کاری کے عمل میں اہم تصور ہوتی ان ٹھوس حقیقتوں کو جنگی جنون میں اندھا ہوا بھارتی میڈیا دیکھ نہیں پایا۔ سعودی ولی عہد کے استقبال کے لئے نریندر مودی بذاتِ خود پالم ایئرپورٹ گیا۔وہاں اس نے شاہزادہ محمد بن سلمان کو جپھی ڈالی۔ بھارتی میڈیا یہ منظر دیکھ کر آگ بگولہ ہوگیا۔ اپنے وزیر اعظم کی جپھی کو اس نے Diplomacyکے بجائے Hugplomacyیعنی ’’جپھی کاری‘‘ کہا۔ سوال تواتر سے پھر یہ اٹھایا گیا کہ مذکورہ جپھی کی بدولت بالآخر سعودی مہمان کی زبان سے پلوامہ کے تناظر میں پاکستان کا نام لے کر مذمت کی توقع کی جائے یا نہیں۔
اس بچگانہ توقع کے ساتھ بہت پریشانی سے مشترکہ اعلامیہ کا انتظار شروع ہوگیا۔مشترکہ اعلامیہ کی تکمیل اور اجراء میں بہت تاخیر ہوئی۔بھارتی وقت کے مطابق یہ اعلامیہ تقریباََ رات کے گیارہ بجے جاری ہوا۔بھارتی اخبارات کے لئے یہ وقت ’’بہت دیر‘‘ شمار ہوتا ہے۔ وہ اشاعت کے لئے اپنی کاپیاں دس بجے تک تیار کرلینے کے عادی ہیں۔
ٹی وی اور ٹویٹر کے ذریعے سفارت کاری کی باریکیاں سمجھانے والے بھارتی مبصرین کو اس مشترکہ اعلامیہ سے بہت مایوسی ہوئی ہے۔پلوامہ پاکستان اور جیش محمد کا اس میں ذکر نہیں۔اس کا کلیدی فقرہ بلکہ ان کے لئے مزید مایوس کن تھا۔ انگریزی میں یہ فقرہ کچھ یوں بیان ہوا ہے۔
"Both sides agreed on the need for creaction of conditions necessary for resumption of the comprehensive dialogue between India and Pakistan”
آسان لفظوں میں یہ یوں کہہ لیں کہ سعودی عرب اور بھارت کے مابین اتفاق ہوا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ’’جامع مذاکرات‘‘ بحال ہوں۔ اس بحالی کے لئے Necessary Conditionsفراہم کرنے پر بھی اگرچہ زور دیا گیا ہے۔
مزید غور کریں تو بھارت کو بتادیا گیا ہے کہ وہ پلوامہ کے بارے میں پاکستان کو Actionableشواہد فراہم کرے۔ ان شواہد کی فراہمی کے بعد ہی پاکستان کو اس واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کے لئے مجبور کیا جاسکتا ہے۔
پلوامہ واقعہ کے بعد پہلی بار مگر ’’جامع مذاکرات (Comprehensive Dialogue)‘‘کے احیاء کی بات ہوئی ہے۔ مذکورہ خواہش بھارتی میڈیا کے لئے ہضم کرنا بہت مشکل ہوگا۔ شایداب راہول گاندھی کی کانگریس بھی مشترکہ اعلامیے کے لتے لینا شروع ہوجائے گی۔مودی کی’’جپھی کاری‘‘ کا مذاق اُڑایا جائے گا۔
سعودی عرب سے پاکستان کا نام لے کر ’’دہشت گردی‘‘ کے تناظر میں مذمت کے خواہاں جنونی یہ سمجھ نہیں پائیں گے کہ بھارت جب ’’دہشت گردی‘‘ کا ذکر کرتا ہے تو سعودی سفارت کاریمن کے حوثیوں کی طرف توجہ دلانا شروع ہوجاتے ہیں۔سوال اٹھاتے ہیں کہ انہیں وہ راکٹ کس نے مہیا کئے ہیں جو سعودی عرب پر برسائے جاتے ہیں۔
مشترکہ اعلامیے میں پاکستان کا نام ڈلوانے کے لئے بھارت کی جانب سے ایران کا نام لینا بھی ضروری تھا۔ بھارت اس کے لئے آمادہ ہو نہیں سکتا۔ اسی باعث پاکستان بھی مشترکہ اعلامیے میں ’’محفوظ رہا‘‘۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ