اسلام آباد سے موصول ہونے والی دو خبروں میں اگرچہ کوئی خبریت نہیں ہے لیکن قومی منظر نامہ پر ان کے دیرپا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم نے پاکستان کی مسلح افواج کو بھارت کی طرف سے کسی جارحیت کی صورت میں فوری کارروائی کرنے کا مکمل اختیار دے دیا ہے۔ گو کہ پاک فوج عملی طور سے کسی سویلین حکومت سے ’حکم‘ لینے کی پابند نہیں ہے لیکن چونکہ ملک میں جمہوریت کا ڈھونگ جاری ہے تو اس خبر پر خوشی سے جھوما جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم کے ’حکم‘ کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔
یوں تو اس خبر کی معنویت یوں بھی کم ہوجاتی ہے کہ وزیر اعظم دو روز پہلے ہی قوم کے نام اپنے ایک ویڈیو پیغام میں بھارت کو متنبہ کرچکے تھے کہ اگر بھارت نے کسی قسم کی مہم جوئی کرنے کی کوشش کی تو پاکستان اس کا جواب دینے میں دیر نہیں کرے گا۔ اگرچہ انہوں نے اس کے ساتھ ہی یہ انتباہ نما مشورہ بھی دیا تھا کہ جنگ شروع تو ہوجاتی ہے لیکن اسے ختم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ پلوامہ حملہ کے بعد بھارت میں بنائی گئی سیاسی فضا میں البتہ فی الوقت بر صغیر کے ان دو ہمسایہ ملکوں نے درمیان جنگ کی باتیں یا اندیشے روز کا معمول دکھائی دیتے ہیں۔
گو کہ مبصرین کی یہ رائے بھی ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے بھارت کی طرف سے کسی قسم کی عسکری کارروائی کرنے کا امکان اور جواز ختم ہوتا جارہا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی یہ اندیشہ بھی موجود ہے کہ آنے والے دنوں یاہفتوں میں پلوامہ طرز کا کوئی دوسرا سانحہ ہوگیا تو اپریل میں انتخابات کا سامنا کرنے والے نریندر مودی اور ان کی انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی کوئی اقدام کرنے پر مجبور ہوگی۔ بعض مبصر اس بات پر بھی اصرار کررہے ہیں کہ نریندرمودی اور ان کے ساتھیوں نے پلوامہ واقعہ کے بعد جو اشتعال انگیز ماحول پیدا کیا ہے اور بھارتی میڈیا جس زور شور سے پاکستان سے انتقام لینے اور اسے سزا دینے کی باتیں کررہا ہے، اس ماحول میں نریندر مودی کے لئے اپنے بڑھک نما بیانات کو درست ثابت کرنے کے لئے کوئی عذر تراشنا پڑے گا خواہ اس کی صورت 2016 کی سرجیکل اسٹرائیک جیسی ہی کیوں نہ ہو جس پر بھارت کے میڈیا اور عوام کے علاوہ کسی کو اعتبار نہیں ہے۔
بھارت کی جنگ جوئی پر البتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان سے اوس پڑنی چاہیے کہ ’پاکستان اور بھارت مل کر باہمی معاملات طے کرلیں تو بہتر ہوگا‘ ۔ صدر ٹرمپ نے ماضی میں پاکستان کے خلاف درشت اور تند و تیز لب و لہجہ اختیار کرنے اور پلوامہ کے بعد بھارت کی طرف سے داد فریاد کے باوجود نہ تو براہ راست اس حملہ کی ’مذمت‘ کی ہے اور نہ ہی اس پر کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔ بلکہ صحافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے یہی کہا ہے کہ ان کی حکومت مناسب وقت پر اس بارے میں بیان جاری کرے گی۔ اسی تناظر میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتایا ہے کہ امریکہ اس حوالے سے پاکستان اور بھارت سے رابطہ میں ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اور وہائٹ ہاؤس کے ترجمان نے البتہ روٹین میں دہشت گردی کا سامنا کرنے والے بھارت کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان سے یہ تقاضہ کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گردی کرنے والے ہمہ قسم عناصر کے خلاف کارورائی کرے۔ اس کے علاوہ صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے حوالے سے یہ معلومات بھی سامنے آئی تھیں کہ امریکہ پلوامہ حملہ کے بعد بھارت کے ’حق دفاع‘ کو تسلیم کرتا ہے۔ تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متوازن اور کسی حد تک غیر جانبدارانہ رویہ سے جان بولٹن کے بیان کی شدت کم ہوجاتی ہے۔
پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کے آج کے اجلاس کے بعد البتہ حافظ سعید کی دو تنظیموں جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت پر پابندی لگانے کا اعلان سامنے آیا ہے۔ حافظ سعید پر 2008 کے ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اس طرح حکومت پاکستان نے کسی حد تک بھارت کی اشک شوئی کی کوشش کی ہے اور عالمی رائے کو یہ پیغام پہنچایا گیا ہے کہ پاکستان انتہا پسندی کے خلاف ہر ممکن اقدام کرنے میں سنجیدہ ہے۔ ممکن ہے کہ یہ پابندی لگانے کے اعلان میں بین السطور یا درپردہ بھارت تک یہ پیغام بھی پہنچایا گیا ہو کہ اگر وہ اپنے لب و لہجہ کی تلخی اور شدت کو کنٹرول کرے اور پاکستان کو دھمکیاں دینے اور الزام تراشی کا سلسلہ بند کیا جائے تو جیش محمد کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی کی جاسکتی ہے۔
اس دوران ایک طرف فرانس نے جیش محمد کے لیڈر مولانا مسعود اظہر کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا معاملہ اقوام متحدہ میں از سر نو اٹھانے کا اعلان کیا ہے تو دوسری طرف بھارت چین پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اس بار اس قسم کی کسی تجویز کو ویٹو نہ کرے۔ چین البتہ اسلام آباد کی مرضی کے بغیر بھارت کو یہ رعایت دینے پر آمادہ نہیں ہو گا۔ اس لئے حافظ سعید کی تنظیموں کے خلاف کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے ہوسکتا ہے یہ پیغام بھی بھیجا گیا ہو کہ پاکستان مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی بھارتی خواہش کی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے گا۔
اگر آئیندہ چند روز یا ہفتوں میں مولانا مسعود اظہر کا نام اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے تو نریندر مودی اور ان کی بوکھلائی ہوئی انتہاپسند سرکار کو انتخابات سے پہلے ’فیس سیونگ‘ کا ایک مناسب سا موقع ضرور مل جائے گا۔ اسے بھارت میں پاکستان کی ’شکست‘ اور نئی دہلی کی واضح کامیابی کے طور پر پیش کیا جائے گا اور انتقام کے پھریرے لہراتا بھارتی میڈیا زوردار طریقے سے یہ دعوے کرتا دکھائی دے گا کہ بھارت نے پاکستان کو سفارتی لحاظ سے تنہا کردیا ہے۔
اب چین نے بھی اسلام آباد کی خواہش کے برعکس مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی بات مان لی ہے۔ یہ وقوعہ رونما ہونے کے لئے اگرچہ واقعات کی ترتیب ذرا مختلف ہوگی اور اسے عالمی دارالحکومتوں میں پاکستان کی سفارتی تنہائی سے زیادہ اس کی ہوش مندی اور تصادم سے نکلنے کے لئے مفاہمانہ طرز عمل کی مثال کے طور پر قبول کیا جائے گا۔ اگر یہ معاملات اسی طرح ترتیب پاجائیں تو بر صغیر میں تصادم کی موجودہ فضا کو ختم کرنے کے لئے پاکستان کی یہ ’قربانی‘ کوئی زیادہ بڑی قیمت نہیں ہوگی۔
ان حالات میں البتہ یہ پوچھنا ضروری ہوگا کہ نئے پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے والی حکومت اور اسٹبلشمنٹ جستہ جستہ قدم اٹھانے پر کیوں یقین رکھتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ بعد از خرابی بسیار حافظ سعید کی تنظیموں پر پابندی لگانے کا اعلان سامنے آیا ہے اور جیش محمد کے بارے میں خاموشی سے کام لیا گیا ہے۔ لیکن حافظ سعید ہوں یا مولانا مسعود اظہر حکومت نے براہ راست ان کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
کیا اس سے یہ مطلب اخذ کیا جائے کہ اس اقدم کو مقبوضہ کشمیر یا بھارت میں دہشت گردی کے کسی نئے واقعہ کے انتظار میں ’مؤخر‘ رکھنا ضروری سمجھا گیاہے۔ سب جانتے ہیں کہ تنظیموں کے ناموں میں کچھ نہیں رکھا بلکہ ان کے درپردہ عناصر ہی اصل اہمیت رکھتے ہیں۔ پراکسی وار ہو یا دہشت گردی میں ملوث گروہ، یہ ضرورت کے مطابق نام اور قیادت بدلنے کا ڈرامہ رچاتے رہتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے یہ نوید تو دی ہے کہ نئے پاکستان میں دہشت گردی کی حمایت نہیں کی جائے گی تو ان سے پوچھنا چاہیے کہ حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کو کٹہرے تک لانے کے لئے پاکستان کو کتنا ’نیا‘ ہونا پڑے گا؟
اس دوران قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی نیب کے ہاتھوں حراست پر شدید احتجاج کیا ہے لیکن حکومت ٹس سے مس ہونے کے لئے تیار نہیں۔ وفاقی کابینہ نے آج ہی نیب کی سفارش پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کا فیصلہ کرکے یہ اعلان کرنا ضروری خیال کیا ہے کہ حکومت اور نیب ’ایک ہی پیج‘ پر ہیں۔ اس ایک پیج حکمت عملی سے البتہ ملک میں سیاسی اور سماجی سطح پر انتشار اور تصادم کی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔
یہ کیفیت بھارت جیسے دشمن ملک کے ساتھ مقابلے کے لئے مناسب نہیں۔ یہ درست ہے کہ بھارت کی جنگ جوئی کے جواب میں سب سیاسی جماعتوں نے قومی مؤقف کی تائید کی ہے اور بھارتی اشتعال انگیزی کو مسترد کیا ہے لیکن منتخب حکومت اپوزیشن کے ساتھ کسی سیاسی مفاہمت اور قومی بیانیہ میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے کسی ایجنڈے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔ یہ رویہ ایک قوم اور ایک آواز کے تاثر کو کمزور کرتا ہے۔ خاص طور سے جب آغا سراج درانی کی گرفتاری کے بعد اسے سندھ اسمبلی کے اختیار اور جمہوری وجود پر حملہ کے مترادف سمجھا جا رہا ہو۔
اس ماحول میں نئی دہلی سرکار کی پریشان خیالی اسلام آباد کے حکمرانوں سے سوا تر ہے۔ بھارتی لیڈر پلوامہ حملہ کے بعد ایک طرف اسے سرحد پار سے کی گئی ’دہشت گردی‘ قرار دے کر پاکستان سے انتقام کی فضا بنا رہے ہیں تو دوسری طرف بھارتی جنتا پارٹی کی سرپرستی میں سرگرم انتہا پسند ہندو گروہوں نے ملک بھر میں کشمیری باشندوں کا جینا حرام کر دیا ہے اور وہ دارالحکومت نئی دہلی جیسے شہر میں بھی اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ پناہ گاہیں تلاش کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ایسے میں بھارت کی حکومت اور سیاست دانوں کو یہ طے کرلینا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں عسکری حملہ پاکستان کی کارستانی ہے یا اس میں کشمیری عوام کا ہاتھ ہے؟
اگر یہ کام پاکستانی علاقوں سے عسکری گروہ کر رہے ہیں تو بھارت میں کشمیری باشندوں کو کیوں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور انہیں کشمیر واپس جانے کے طعنے کیوں دیے جا رہے ہیں۔ اور اگر کشمیری ہی بھارتی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو چکے ہیں تو کیا بھارت امن پسند کشمیری شہریوں کو ٹارگٹ کر کے کشمیر میں آزادی کے لئے اٹھنے والی آواز کو دبانے میں کامیاب ہو جائے گا؟ نئی دہلی کو مان لینا چاہیے کہ اس کی فوج اور پیرا ملٹری فورسز مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظلم اور پر تشدد ہتھکنڈوں سے کشمیری عوام میں نفرت اور بے چینی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ بے چینی بعض صورتوں میں برہان وانی یا عادل ڈار بن کر تباہی اور دہشت کاسبب بھی بنتی ہے۔
اس صورت حال سے نکلنے کا راستہ تو وہی ہے جو پاکستان تجویز کرتا ہے کہ پاکستان اور کشمیری قیادت سے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلہ کا مستقل حل تلاش کرنے کے لئے اقدام کیا جائے۔ اسی طرح لہو لہان کشمیر میں امن قائم ہوسکتا ہے اور برصغیر کے لوگ سکھ کا سانس لے سکتے ہیں۔ ظلم کرنے اور نفرت پھیلانے کا رویہ تباہی کا راستہ ہے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ