بھارتی ریاست کے ظلم و جبر کا نشانہ بنے کشمیریوں سے ہمدردی اور یکجہتی کے اظہار کا ایک اور دن ہم نے اتوار کے روز منا لیا۔ روایتی جلسے، جلوس اور جذباتی تقاریر،کشمیریوں کو یاد دلانے کی ایک اور کوشش کہ ہم نے انہیں بھلایا نہیں جدید کشمیری لکھاریوں میں بشارت پیر کے بعد دوسرا بڑا نام وحید مرزا کا ہے۔ پھولوں، رنگوں اور کشمیریوں کی قالین بُننے جیسے ہنر کے ذریعے تخلیقی حسن پیش کرنے کی صلاحیتوں کے تناظر میں وہ انتہائی خوب صورتی کے ساتھ آج کی وادی میں محصور و پریشان ہوئے انسانوں کی داستانیں لکھتا ہے۔ دل موہ لیتا ہے مگر اداس کردیتا ہے۔ اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے اتوار کی شام وحید نے پاکستانیوں کے کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار پر تہہ دل سے شکریہ ادا کیا مگر ساتھ ہی مؤدبانہ التجا یہ بھی کردی کہ کئی دہائیو ں سے مستقل نظر آتے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ایک مناسب اور مؤثر حکمت عملی بھی درکار ہے کوئی اور لفظ لکھے بغیر اس نے گھبرا دینے والا پیغام درحقیقت یہ دیا کہ ایسی حکمت عملی کم از کم اسے تو نظر نہیں آرہی کشمیر کاز کے لئے جلسے کرنے، جلوس نکالنے اور نعرے لگانے والوں کے پاس کوئی مؤثر حکمت عملی ہو یا نہیں، تلخ حقیقت البتہ یہ ہے کہ برہان وانی کی قابض افواج کے ہاتھوں وحشیانہ ہلاکت کے بعد سے مقبوضہ کشمیر وادی میں آزادی کی جو تڑپ نمودار ہوئی ہے وہ اپنی سرشت میں قطعاًََ نئی اور انوکھی ہے۔ اچھے بھلے خوش حال گھرانوں کے مہنگے سکولوں میں تعلیم حاصل کر کے جوان ہوئے بچے انٹرنیٹ اور فیس بک کی بدولت چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر اپنے اپنے علاقوں میں لوگوں کو سڑکوں پر لے آتے ہیں۔ قابض افواج کو والہانہ نعروں کے ذریعے للکارا جاتا ہے۔ انگریز کے زمانے سے برصغیر میں نعرے لگاتے جلوسوں کو محض لاٹھی چارج یا آنسو گیس کے ذریعے منتشر کرنے کی روایت رہی ہے انتہائی صورتوں میں ہوائی فائرنگ کا سہار ابھی لیا جاتا ہے بھارت کے کسی بھی صوبے یا شہر میں کوئی احتجاجی تحریک چلے تو آج بھی اس پر قابو پانے کے لئے ایسے ہی ہتھکنڈے اختیار کئے جاتے ہیں چند ماہ قبل مثال کے طورپر صوبہ ہریانہ میں جاٹوںکے لئے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ بڑھانے کی ایک تحریک چلی جو کافی متشدد تھی۔ تامل ناڈ میں چند ہفتے قبل بھینسوں کی لڑائی پر پابندی لگی تو ایسے ہی مظاہرے دیکھنے کو ملے ان سب پر لاٹھی چارج ،آنسوگیس اور ہوائی فائرنگ کے ذریعے ہی قابو پایا گیا۔ بھارت کشمیر کو اپنا ”اٹوٹ انگ“ کہتا ہے۔ Crowd Control کے لئے وہاں مگر ہاتھوں میں سڑکوں سے پتھر اُٹھا کر پھینکنے والے مظاہرین پر اسرائیل سے درآمد شدہ ایسی گولیاں برسائی گئیں جن کے چھرے آنکھوں میں لگیں تو بچے اور بچیاں عمر بھر کے لئے بصارت سے محروم ہوجاتے ہیں ان گولیوں کا استعمال بھی لیکن کشمیری نوجوانوں کو ہرگز دہشت زدہ نہیں کر پایا ہے۔حال ہی میں بھارت کے ایک سابق وزیر خارجہ نے جس کا تعلق مودی کی جماعت ہی سے رہا ہے کچھ اور لوگوں کے ساتھ مل کر ایک رپورٹ لکھی ہے جس کا نچوڑ یہ ہے کہ کشمیری نوجوانوں کی بے پناہ اکثریت اب موت کے خوف سے آزاد ہوچکی ہے ایسے نوجوانوں کو ریاستی جبر کے ذریعے خاموش کروانا ممکن ہی نہیں رہا۔مودی سرکار مگر ریاستی طاقت کے وحشیانہ استعمال پر ہی انحصار نہیں کر رہی مسئلہ کشمیر کے ”مستقل حل“ کے لئے اس نے ایک طویل المدتی پالیسی بنا رکھی ہے جس پر انتہائی مکاری کے ساتھ بتدریج عمل ہو رہا ہے۔پاکستان میں بیٹھ کر کشمیر کے بار ے میں بلند آہنگ الفاظ کی جگالی کرتے لوگوں سے میرا اصل گلہ یہ ہے کہ وہ مذکورہ حکمت عملی کو مؤثر انداز میں سمجھنے اور ہمیں سمجھانے میں ناکام رہے ہیں۔مثال کے طور پر بھارتی آئین میں ایک آرٹیکل 370 ہے اس آرٹیکل کی وجہ سے مقبوضہ جموں وکشمیر وہ واحد بھارتی صوبہ ہے جسے وہاں ریاست کہا جاتا ہے جسے کچھ استثناء حاصل ہیں۔ دلی یا کسی اور دوسرے بھارتی شہر کا باشندہ سری نگر وغیرہ میں زمین خرید کر اس پر مکان بنانے کے بعد وہاں رہائش اختیار نہیں کر سکتا۔ اس شق کی بدولت وادی کشمیر میں مسلمان ابھی تک اپنی اکثریت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔مودی کی جماعت کا انتخابی وعدہ تھا کہ وہ اقتدار میں آئے تو اس استثناءکو ختم کردیا جائے گا۔ ٹرمپ کی طرح اقتدار میں آنے کے بعد مودی کو اس وعدے پر عملدرآمد کی مگر جرات نہیں ہوئی۔ منصوبہ اب یہ ہے کہ پارلیمان کی بجائے بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے اور اسے اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ طے کرے کہ آیا بھارتی آئین کی ”روح کے مطابق“ کسی شہری سے یہ ”بنیادی حق“چھینا جا سکتا ہے کہ وہ بھارت کے کسی بھی حصہ میں جا کر زمین خریدے، رہائش اختیار کرے یا کاروبار کرے۔ مقبوضہ کشمیر اگر بھارت کا ”اٹوٹ انگ“ ہے تو وہاں غیر ریاستی شہریوں کو یہ حق کیوں حاصل نہیں؟۔
کشمیر سے جلاوطن ہوئے پنڈتوں کی بحالی کے نام پر مقبوضہ وادی میں پنڈتوں کی بستیاں آباد کرنے کے منصوبے پہلے ہی سے جاری ہیں۔بھارتی افواج نے اپنے لئے ہماری ڈیفنس ہاﺅسنگ سوسائٹی جیسے علاقے بھی بنانا شروع کر دئیے ہیں جہاں کئی برسوں تک کشمیر میں Serve کرنے والوں کی مستقل آبادی کی راہ بنائی جا رہی ہے۔ مودی سرکار کی خواہش ہے کہ ”بنیادی شہری حقوق“ کی بناء پر سپریم کورٹ کو استعمال کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا ”آئینی اور قانونی جواز“ حاصل کیا جائے۔ کسی بھی ریاست کو ایسا جواز مل جائے تو اسے ریاستی قوت کو وحشیانہ انداز میں استعمال کرنے کا ”حق“ بھی مل جاتا ہے جو نام نہاد ”عالمی برادری“ کو ہرگز حیران نہیں کرتا چند باخبر کشمیریوں سے Whatsapp وغیرہ کے ذریعے مستقل رابطے کی بنیاد پر مجھے خدشہ ہے کہ اس سال مارچ یا اپریل میں بھارتی سپریم کورٹ سے مذکورہ بالا حوالوں سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ انتظار محض یوپی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیوں کے نتائج کا ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں کچھ لوگوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ مودی کی جماعت اگر یوپی کے انتخابات جیت گئی۔ جس کی آبادی 20 کروڑ ہے اور جہاں کا انتخابی فیصلہ بھارت کی نام نہاد ”ہندی بیلٹ“ کی خواہشات وترجیحات کا اظہار سمجھا جاتا ہے تو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دوبارہ آغاز کی بات کی جائے گی۔ یوپی میں جیت مودی کو یہ اعتماد بخشے گی کہ وہ دیرپا امن کے قیام کے لئے پاکستان کے ساتھ اٹل بہاری واجپائی کی طرح “States Manly Initiatives” لے سکتا ہے مجھے اگرچہ ایسی امید ہرگز نہیں ہے ٹرمپ کی جیت نے دُنیا بھر کے تعصب پرست اور انتہا پسند رہ نماﺅں کو پیغام یہ دیا ہے کہ اپنی بات پر ڈٹے رہو۔ سمجھوتوں سے پرہیز کرو ورنہ تمہاری Base کمزور ہوجائے گی ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آنے کی مجبوری نے ابھی تک دنیا کو جو سیاست دان دئیے وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ کر انہیں اپنے حلقہ اثرمیں لانے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ مودی اور اب ٹرمپ کی جیت نے خوفناک اور نیا پیغام یہ دیا ہے کہ جمہوریت میں اصل قوت اکثریتی ووٹوں کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔ لہٰذا محض اس بات پر توجہ دو کہ تمہارے ملک کے لوگوں کی اکثریت اپنے دلوں میں کون سے جذبات چھپائے ہوئے ہے۔ ان جذبات کا ڈٹ کر اظہار کرو۔ انہیں بھڑکاﺅ۔ انتخابات میں ان کے ذریعے اکثریتی ووٹ حاصل کرو اور پھر انتہائی ڈھٹائی سے راج کرو۔ بھارتی رائے دہندگان کی اکثریت بھی اب کشمیر کا ”مستقل حل“ دیکھنے کو بے چین ہے۔ یہ حل ویسا ہی ہے جیسا ہٹلر نے یہودیوں کے ضمن میں Final Solution کی صورت ڈھونڈا تھا۔ ”مستقل حل“ کی اس خواہش کو مودی بھرپور انداز میں اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے استعمال کرنے کو بے چین ہے۔ ہمیں اس بے چینی کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرتے ہوئے اس کے توڑ کے لئے کوئی مؤثر حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ صرف نعروں اور خواہشات کے اظہار سے کام نہیں چلے گا۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ