ہم آئے روز سنتے اور پڑھتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیمی نظام کا حال اچھا نہیں ہے۔ پاکستان میں تعلیم کی قدرواہمیت نہیں ہے۔ یہاں لوگوں کے لیے بے روزگاری ہے۔ اس عنوان پر ہر ایک نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے۔ خوب صحیفے سیاہ کئے گئے ہیں لیکن کسی نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ جو لوگ یہاں پر ڈگری یافتہ ہیں کیا وہ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور جو لوگ ڈگری یافتہ نہیں ہیں وہ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہیں۔ ان کے پاس رکھ رکھاﺅ اور بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں ہے اور وہ لوگ اپنی زندگی دیہاتیوں اور جاہلوں کی طرح گزارتے ہیں لیکن یہ افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان میں پڑھے لکھے جاہل بہت پائے جاتے ہیں۔ ڈگری یافتہ تو بہت ہیں لیکن ان میں کردار کی پختگی نہیں پائی جاتی حتیٰ کہ وہ تعلیم کے حرف ”ت“ سے بھی آگاہ نہیں ہوتے۔ کہتے ہیں کہ تعلیم لوگوں میں عقل و شعور اور آگاہی فراہم کرتی ہے اور انسان کی شخصیت اور کردار کے روشن پہلوﺅں کو مزید اجاگر کر کے انسان کے کردار کو مزید نکھارتی ہے لیکن یہ ہمارے لیے افسوس کا مقام ہے کہ ہم جو خصوصیات اور قابلیت ڈگری یافتہ لوگوں میں تلاش کرتے ہیں وہ ان میں سِرے سے موجود ہی نہیں ہوتیں اور جن لوگوں کو ہم دیہاتی اور اَن پڑھ سمجھ کر بات کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اِن لوگوں میں ڈگری یافتہ لوگوں سے زیادہ کردار کی پختگی، رکھ رکھاﺅ اور سمجھ بوجھ پائی جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں لوگوں کو ان کی ڈگری سے نہیں بلکہ ان کی قابلیت کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ ان لوگوں کو حقیر اور کم تر نہ سمجھیں۔ ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور ان کی قابلیت کی قدر کریں تاکہ وہ لوگ بھی معاشرے کی بہتری سے اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں اور پرسکون زندگی گزار سکیں۔ ڈگری اس معاشرے میں اس لئے بھی ناکارہ ہو گئی کہ ہمارے ہاں ڈگری علم کے لئے نہیں صرف نوکری کے حصول کے لئے حاصل کی جا رہی ہے ۔ اور اب تو اس کے ذریعے نوکری کا حصول بھی ممکن نہیں رہا ۔ ڈگری یافتہ اور سزا یافتہ لوگ ایک ہی سطح پر دکھائی دیتے ہیں۔ اچھے برے کی تمیز دونوں میں نہیں ۔ آج ہمارے معاشرے میں ڈاکٹر ، وکیل ،پروفیسر اس لئے اپنا وقار کھو چکے کہ ان میں سے اکثریت کے پاس صرف ڈگریاں موجود ہیں ، اگر ان کے پاس ڈگریوں کے ساتھ ساتھ علم بھی ہوتا تو پھر ان کے اندر کی ہوس ختم ہو چکی ہوتی ۔ پھر ان کے پیشوں کا تقدس بھی برقرار رہتا اور معاشرہ بھی اس زوال کا شکار نہ ہوتا جس کا آج ہمیں سامنا ہے ۔
فیس بک کمینٹ